سہیل وڑائچ کا عمران کو غلطی مان کر معافی مانگنے کا مشورہ

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ اڈیالہ جیل میں بند عمران خان کے لیے نجات کا واحد راستہ یہی ہے کہ وہ 9 مئی کے واقعات پر معافی مانگیں اور ان تمام لوگوں کو پی ٹی آئی سے نکال باہر کریں جو کہ فوجی تنصیبات پر حملوں میں شامل تھے۔

ان کے مطابق عمران خان کو سمجھنا ہوگا کہ غلطی پر اصرار سے لڑائی بڑھتی ہے جب کہ غلطی پر معافی مانگ لینے سے معاملہ رفع دفع ہو جاتا ہے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ میں ان دنوں یورپ میں ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ یورپ جیسے ترقی یافتہ معاشروں میں جنگ، نفرت اور لڑائی مارکٹائی کی بجائے مکالمہ اور معافی کے اصولوں کو اپنا کر نئے راستے کھولے گئے ہیں۔ البتہ کوئی تشدد اور نفرت پر آمادہ ہو تو پھر ریاست ،عدالت اور شہری اس کو سزا دینے پر تل جاتے ہیں ۔برطانیہ میں تھوڑا عرصہ پہلے نسلی فسادات کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی تو ریاست نے فوری ایکشن لیا۔ وزیر اعظم خود مساجد میں گئے اور انتہا پسند گوروں کی سخت مذمت کی۔ عدالتوں نے ہر فسادی کو سزا سنائی حتیٰ کہ نفرت پر مبنی مواد کو ری ٹویٹ کرنے پر بھی سخت سزا دی گئی۔ ایک کمسن بھی اس زد میں آیا لیکن اسے بھی نہ بخشا گیا حالانکہ برطانیہ میں 18سال سے کم عمر بچوں کو سزائیں دینے کے بارے میں بہت احتیاط کی جاتی ہے۔ اختلاف پر یہاں کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ مذہب جو بھی ہو اسے مکمل آزادی ہے مگر تشدد اور تخریب یہاں کی ریڈ لائن ہے ۔

کیا برطانوی حکومت عمران خان کی رہائی کی کوشش کررہی ہے ؟

سہیل وڑائج کہتے ہیں کہ پاکستان نے بھی اگر آگے بڑھنا ہے تو اسے دنیا سے سیکھنا چاہئے۔ مکالمے اور معافی کو رواج دینے کیساتھ ساتھ تشدد کو معاشرے سے خارج کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اسے ریڈلائن بنایا جائے، جلسے جلوس ہوں مگر ہجوم سیاسی ہو یا مذہبی اگر وہ تشدد پر اتر ے تو اسے قرارواقعی سزا دینی چاہئے۔ میری 9 مئی والے دن سے ہی یہ سوچیں سمجھی رائے رہی ہے کہ عمران خان کو اس روز فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث اپنے ساتھیوں کو پارٹی سے نکال دینا چاہئے اور تشدد و تخریب کے حوالے سے معافی مانگ کر آگے بڑھنا چاہئے۔ عدالتیں 9 مئی میں ملوث افراد کو سزا دیں یا چھوڑ دیں یہ کام ان پر رہنے دینا چاہئے کیو کہ غلطی پر بے جا اصرار سے لڑائی بڑھتی ہے اور معافی مانگ لینے سے معاملہ رفع دفع ہو جاتا ہے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ پاکستان سے دور بیٹھا کبھی کبھار خبروں پر نظر ڈالتا ہوں تو تشدد اور تخریب بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔ صدر زرداری ،نواز شریف اور عمران خان تینوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اپنی انائوں سے باہر نکل کر گفت وشنید کا سلسلہ کیوں شروع نہیں کرتے؟ عمران خان اور انکی جماعت کے حماد اظہروں اور مراد سعیدوں کو خونی انقلاب کے خواب سے باہر نکل کر حقیقتوں کا ادراک کرنا ہوگا باہر محفوظ جگہوں پر بیٹھے یوٹیوبرز کے دبائو پر اگر پارٹی اپنی پالیسیاں بناتی رہی تو پھر اسے کبھی سیاسی کامیابی نہ ہو گی۔ آج یہ سب سے کامیاب اور پاپولر جماعت ہے لیکن اگر انقلاب اور تشدد کا راستہ بنایا گیا تو یہ خفیہ مزاحمتی پارٹی میں تبدیل ہوتی جائے گی جو کہ کسی بھی پاپولرسیاسی جماعت کیلئے اچھا راستہ نہیں ہوتا۔ موجودہ بحران میں تحریک انصاف کی دوسرے درجے کی لیڈر شپ بے بس نظر آتی ہے۔ ایک طرف وہ اپنے لیڈر عمران خان سے ہی خوفزدہ ہے اور اس میں سچ کہنے کا حوصلہ نہیں کہ کہیں وہ ناراض نہ ہو جائیں۔ دوسری طرف سوشل میڈیا کا جو بوتل والا جِن تحریک انصاف کو اٹھاتا ہے وہی جِن تحریک انصاف کے لئے صلح، امن اور مفاہمت کے راستے بند کئے بیٹھا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ عمران خان کے مشورے سے جلسہ ملتوی کرنے پر سوشل میڈیا کے ان جنوں نے اپنے ہی لیڈروں کو فوجی وردیاں پہنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ سب لوگ بکے ہوئے ہیں۔ خان صاحب کی سب سے متحرک بہن علیمہ خان اپنے ہی بھائی کے نامزد کردہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور پر چڑھ دوڑی ہیں۔ ابھی تو روحانی مرشد بشریٰ کا ردعمل دیکھنے والا ہو گا کہ وہ کس کس کو پارٹی کا غدار قرار دیتی ہیں۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ مجھے کبھی بھی حماد اظہروں اور مراد سعیدوں کی شدت پسند پالیسی سے اتفاق نہیں رہا۔ اسی لئے حماد اظہر صاحب میرے خلاف ٹویٹ پر ٹویٹ کرتے رہتے ہیں جس کا میں نے کبھی جواب نہیں دیا، لیکن میں انہیں تاریخ کا یہ سبق یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہر انتہا پسند کو اس سے زیادہ شدت کا انتہا پسند شکست دیتا ہے۔ آپ انتہا پسندی کی روش پر چل کر چے گویرہ بنے ہوئے تھے، لیکن اب نئے کاسترو میدان میں آ چکے ہیں، میانہ روی اور برداشت ہی بہترین سیاست کی کنجی ہے۔ ہر ایک کو نیچا دکھانا، مخالفین کا مذاق اڑانا، اور خود کو زور زبردستی سے سچا ثابت کرنا زیادہ دیر نہیں چلتا۔ میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ اگر حکومت انتہا پسندی بھی کرے تشدد پر بھی اتر آئے، جیلوں میں بھی ڈال دے اور سزائیں بھی سنا دے تو گاندھی اور جناح کی طرح برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مخالف کا مقابلہ کرنا چاہیئے اور اسے شکست دینی چاہیئے۔ یاد رکھیے کہ جوابی ردعمل اور انتہا پسندی کی پالیسی ہمیشہ نقصان دہ ہوتی ہے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ نیلسن منڈیلا نے مکالمہ اور معافی کا شعار بنا کر جنوبی افریقہ کو نسلی منافرت سے آزاد کر دیا۔ تحریک انصاف اور حکومت کیساتھ ساتھ فوج سے بھی گزارش ہے کہ مکالمے اور معافی کی بنیاد پر پاکستان کو آگے بڑھایا جائے۔ آج حکومت طاقت میں ہے اور فوج کا زور چل رہا ہے، مگر یہ زور ہمیشہ نہیں رہیگا۔ اس لیے ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ طاقت کے استعمال کی بجائے مفاہمت اور مکالمہ ہی پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام لا سکتا ہے۔

Back to top button