کیا برطانوی حکومت عمران خان کی رہائی کی کوشش کررہی ہے ؟

مغربی ممالک کے بعض سیاسی رہنماؤں کی جانب بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے حوالے سے آوازیں بلند ہونے کے بعد اب سوشل میڈیا پر افواہیں گرم ہیں کہ برطانیہ نے براہ راست سابق وزیر اعظم عمران خان کو رہائی دلانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ ناقدین کے مطابق عمران خان کی جانب سے برطانوی آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا الیکشن لڑنے کا اعلان اور برطانوی ہائی کمشنر کی لیگی قیادت سے ملاقاتیں اسی سلسلے کی کڑی ہیں تاہم نون لیگ اور پی ٹی آئی رہنما اس حوالے سے کسی بھی پیشرفت کی تصدیق کرنے سے انکاری ہیں۔

سینئر صحافی عمر چیمہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 18؍ اگست کو برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ نے مری میں نواز شریف اور مریم نواز شریف سے ملاقات کی۔ پارٹی کے آفیشل اکاؤنٹ سے کی گئی ٹوئیٹ کے مطابق ملاقات میں تعلیم، صحت، موسمیاتی تبدیلیوں اور دیگر مسائل پر بات چیت ہوئی۔ تاہم اب اس آفیشل ملاقات کے ایک ہفتے بعد سوشل میڈیا پر یہ افواہیں پھیل گئی ہیں کہ ہائی کمشنر نے دوران ملاقات لیگی قیادت سے عمران خان کیلئے ریلیف کی درخواست کی ہے۔

عمر چیمہ کے مطابق سوشل میڈیا پر ایسی افواہوں کا وائرل ہونا سیاسی و سفارتی حلقوں کیلئے بہت حیران کن ہے۔ تاہم ان افواہوں کے ساتھ ہی ایک اور کہانی یہ بھی گردش کرنے لگی ہے کہ برطانوی ہائی کمشنر نے لیگی قیادت کے سامنے جیل میں قید جنرل (ر) فیض حمید کا معاملہ بھی اٹھایا تھا۔ شریف فیملی کو یہ درخواست رسماً کی گئی تھی لیکن جب یہ معاملہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ زیر بحث آیا تو اس نے اس پر ناراضی کا اظہار کیا۔ اگرچہ یہ معاملہ میڈیا پر نہیں آیا لیکن سوشل میڈیا پر یہ موضوع گرم رہا۔ تاہم اس حوالے سے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ برطانوی ہائی کمشنر دیگر تمام سفارت کاروں کی طرح باقاعدگی کے ساتھ سیاسی منظر نامے بارے معلومات لینے کیلئے مختلف سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کرتے رہتے ہیں۔ تاہم ترجمان نے سوشل میدیا پر وائرل افواہوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ عمر چیمہ کے مطابق انہوں نے اس پیشرفت بارے حقائق جاننے کیلئے شریف فیملی سے قربت رکھنے والے دو لوگوں سے رابطہ کیا۔ دونوں نے اس بات سے انکار کیا کہ برطانوی ہائی کمشنر نے ایسی کوئی درخواست کی تھی۔ ان میں سے ایک نے یہ معاملہ ہنس کر اڑا دیا جبکہ دوسرے نے اس بات کی تصدیق کرنے کے بعد دوبارہ دی نیوز کو تقریباً وہی جواب دیا جو پہلے دیا تھا۔ شریف فیملی کا حصہ سمجھے جانے والے ایک ذریعے نے بتایا، ’’دوران ملاقات برطانوی ہائی کمشنر نے عمران خان کا بہت مختصر ذکر کیا لیکن انہیں ریلیف دینے کی کبھی درخواست نہیں کی۔ یہ میٹنگ گورننس اور معیشت پر مرکوز رہی۔‘‘ جب اس ذریعے سے یہ پوچھا گیا کہ کیا وہ جنرل (ر) فیض کے حوالے سے کی گئی کسی درخواست کے بارے میں جانتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ بات شریف فیملی کے ساتھ شروع نہیں کی گئی تھی لہٰذا وہ اس کی تصدیق یا تردید نہیں کر سکتے۔ عمر چیمہ کے مطابق دی نیوز دیگر ذرائع سے بھی ایسی کسی پیشرفت کی تصدیق نہیں کر سکا۔ لیکن ذریعے نے یہ بتایا کہ جس وقت جنرل فیض آئی ایس آئی چیف تھے اس وقت وہ برطانوی حکام کے ساتھ قریبی تعاون میں تھے۔ ذریعے نے اس شبے کا اظہار کیا کہ 2021 میں نواز شریف کی جانب سے ویزے میں توسیع کی درخواست جنرل فیض کے کہنے پر مسترد کی گئی تھی۔ وزیر اعظم عمران خان کے دور میں نواز شریف کو نومبر 2019 میں شدید علیل ہونے پر علاج کیلئے برطانیہ جانے کی اجازت دی گئی تھی لیکن وہ واپس نہ آئے اور دسمبر 2020 میں انہیں اشتہاری مجرم قرار دے دیا گیا۔ وہاں رہتے ہوئے میاں نواز شریف نے ویزا میں توسیع کی درخواست دی تھی۔ شریف خاندان کا حصہ سمجھے جانے والے ذریعے کے مطابق جس وقت سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف ریٹائر ہونے والے تھے تو اس وقت برطانیہ نے ان کی مدت ملازمت میں توسیع کی درخواست کی تھی۔ اُس وقت برطانوی قومی سلامتی کے مشیر مارک لائل گرانٹ خصوصی درخواست لیکر پاکستان پہنچے تھے کہ راحیل شریف کو توسیع دی جائے۔ تاہم ذرائع کے مطابق نواز شریف نے جنرل راحیل شریف کی توسیع بارے برطانوی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔

خیال رہے کہ عمران خان کے آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کے الیکشن میں شرکت کے اعلان کے بعد بھی یہ افواہیں گرم ہوئی تھیں کہ بانی پی ٹی آئی آکسفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر بننے کر ملک سے بھاگنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ تاہم  بعد ازاں عمران خان نے ایسی افواہوں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ڈیل کر کے بیرون ملک کبھی نہیں بھاگیں گے بلکہ ملک میں رہ کر قانون کا سامنا کرینگے  اور سرخرو ہو کر دوبارہ عوام کی خدمت کرینگے۔

Back to top button