سپریم کورٹ کے ججز کو عمران کا ایجنڈا لے کر چلنے سے کون روکے گا؟
ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک میں سیاسی و آئینی بحران سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ جہاں ایک طرف ملک میں سیاسی محاذ آرائی شدت اختیار کر رہی ہے وہیں دوسری جانب اداروں کے درمیان تصادم بھی بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس تناظر میں لوگ مختلف قسم کی پیش گوئیاں کرتے نظر آ رہے ہیں۔ کسی کو مارشل لا نظرآ رہا ہے۔ کسی کو ایمرجنسی دکھائی دے رہی ہے۔ کسی کو یہ نظام چلتا نظر نہیں آرہا۔ تا ہم فی الحال کسی کے پاس کوئی پکا روڈ میپ نہیں ہے کہ آگے کیا ہوگا۔ لیکن ہر کسی کو یہ اندازہ ضرور ہے کہ کچھ بڑا ہوگا۔ اسی صورتحال کی تصدیق کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف کا بھی کہنا ہے کہ ملک میں جلد یا بدیر بڑا آئینی بحران آنے والا ہے، موجودہ صورتحال ماضی کی صورتحال سے کئی زیادہ گمبھیر ہے اور اقتدار چھن جانے کے بعد سے تحریک انصاف نے جو رویہ اپنایا ہوا ہے اس سے وہ ملک کے وجود کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔جلد یا بدیر ملک میں آئینی میلٹ ڈاؤن ہونے والا ہے۔
عمراندار ججز نے تحریک انصاف کو نئی زندگی کیوں اور کیسے دی؟
تاہم مبصرین کے مطابق کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں اگر کوئی بھی ماورا آئین قدم اٹھائے گا تو سپریم کورٹ اس کو روکنے کے لیے موجود ہے۔ سپریم کورٹ ملک کو آئین وقانون کے مطابق چلانے کی چوکیدار ہے۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سپریم کورٹ ہر ماورا آئین کام کو روکے گی اور ملک میں جمہوریت کے تسلسل کو قائم رکھے گی۔ لیکن دوسری طرف یہ سوال بھی موجود ہے کہ اگر سپریم کورٹ آئین سے تجاوز کر کے فیصلے دینا شروع کر دے تو کیا کیا جائے؟ آج ملک میں یہ بحث شروع ہے کہ کوئی بھی ادارہ آئین سے تجاوز کرے تو سپریم کورٹ اسے روک سکتی ہے۔ لیکن اگر سپریم کورٹ اپنے کسی فیصلے سے آئین سے تجاوز کرے یا تشریح کے اختیار کاسہارا لے کر نیا آئین لکھنے کی کوشش کرے تو کیا کیا جائے؟ پھر کسی کے پاس کوئی راستہ ہی نہیں ہے۔
سینئر صحافی مزمل سہروردی کے مطابق اگر ماضی قریب میں دیکھا جائے تو ایک نہیں کئی ایسے فیصلے ہیں‘ جن کے بارے میں یہ مضبوط رائے موجود ہے کہ ان فیصلوں میں آئین سے تجاوز کیا گیا ہے۔ ویسے تو سپریم کورٹ کی جانب سے جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے کیس میں جب پارلیمنٹ کو قانون سازی کرنے کے لیے چھ ماہ کی مہلت دی گئی تھی اور اس دوران جنرل باجوہ کو بطور آرمی چیف کام جاری رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔ یہ چھ ماہ کی مہلت کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔ اس لیے اسے بھی ماورائے آئین ہی کہا جاتا ہے۔
اسی طرح جب آئین کے آرٹیکل 63کی تشریح کی بات ہوئی تو سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے والے ارکان اسمبلی صرف نا اہل نہیں ہونگے بلکہ ان کے ووٹ بھی شمار نہیں کیے جائیں گے۔ جب آئین میں لکھا ہے کہ رکن اسمبلی ووٹ ڈالے گا پھر نا اہل ہو گا تو ووٹ شمار نہ کرنے کی بات کہاں سے آگئی۔اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد آئین کی نئی شکل بن گئی ہے کہ ووٹ بھی شمار نہیں ہوگا اور نا اہل بھی ہوگا۔ اب ایک طرف سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے دوسری طرف آئین ہے دونوں ایک دوسرے سے متصادم ہے۔ اسی طرح ضمنی انتخابات کے لیے وزیر اعلیٰ کا انتخاب روکنا بھی آئین کے مطابق نہیں تھا۔ ایسا کہیں آئین میں نہیں لکھا ہوا کہ ضمنی انتخابات کے لیے وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کا انتخاب روکا جائے گا۔ منتخب وزیر اعلیٰ کو نگران بنا دینا بھی کوئی آئینی فیصلہ نہیں تھا۔
لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بغیر جو الیکشن ٹربیونل بنائے گئے۔ آئین میں اسے یہ اختیار حاصل نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے اس کیس میں بھی درمیانی راستہ ہی نکالا۔ لاہور ہائی کورٹ کے آئین سے تجاوز کرنے کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔ بس فیصلہ معطل کیا گیا۔
اس طرح ماورا آئین فیصلے کرنے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوگا۔ یہ تو لاہور ہائی کورٹ کا معاملہ تھا جو سپریم کورٹ سے معطل ہوگیا لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تو کسی کے پاس کوئی آپشن ہی نہیں ہوتا۔ اب مخصوص نشستوں کے فیصلے میں آئین میں ارکان کو وفاداری کا فیصلہ کرنے کے لیے تین دن دیے گئے ہیں۔ لیکن عدالتی فیصلے میں مدت تین دن سے بڑھا کر 15 دن کر دی گئی ہے۔
یہ رائے مضبوط ہے کہ مدت بڑھانے کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس نہیں تھا۔ اس لیے یہ فیصلہ ماورا آئین ہے۔ یہ درست ہے کہ سپریم کورٹ سے توقع ہے کہ اس نے مکمل انصاف کرنا ہے۔ لیکن مکمل انصاف کی خاطر کیا آئین وقانون سے باہر جایا جا سکتا ہے؟ جب ایک سیاسی فریق کو مکمل انصاف دینے کے لیے آئین وقانون سے باہر نکل کر فیصلہ کیا جائے تودوسرا سیاسی فریق متاثر ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ عدالتی سہولت کاری کی گئی ہے جس سے ملک کے سیاسی منظر نامہ میں عدم استحکام پیدا ہوا ہے۔ سنی اتحاد کونسل کے کیس میں تحریک انصاف کو ریلیف ملنے کے حوالے سے بھی ایسی ہی توجیحات سامنے آرہی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا مکمل انصاف یا حقیقی زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے سپریم کورٹ آئین وقانون سے باہر نکل کر کوئی فیصلہ کر سکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ عدالتوں کا زمینی سیاسی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے کیونکہ انصاف اندھا ہوتا ہے ججز نے صرف اپنے سامنے کیس اور آئین و قانون کو دیکھنا ہوتا ہے۔ جب جج صاحب کہتے ہیں کہ مجھے سب پتہ ہے تو و ہ جج نہیں رہتے۔ اگر انھیں کیس کے بارے پہلے سے کچھ معلوم ہے تو وہ مدعی فریق یا گواہ ہو سکتا ہے جج نہیں ہو سکتا۔ جج کیس کو سن کر، آئین وقانون کے مطابق فیصلے کرنےکا پابند ہوتا ہے۔ آئین وقانون سے متجاوز فیصلہ چاہے کتنا بھی انصاف پر مبنی ہو‘ اسے انصاف نہیں کہا جا سکتا‘ وہ ماورائے آئین ہی ہوگا۔
آج ملک کے سیاسی سٹیک ہولڈرز کے سامنے یہ سوال کھل کر سامنے آ چکا ہے کہ اگر سپریم کورٹ آئین سے متجاوز فیصلے دینا شروع کر دے تو آئین میں اسے روکنے کا کوئی قابل عمل میکنزم نہیں ہے۔ فیصلے پر نظر ثانی اپیل دائر کرنا بھی آئین سے تجاوز کی سزا نظر نہیں آتی کیونکہ جس نے آئین سے تجاوز کیا ہے۔ اس کے پاس دوبارہ جانا بھی غیر منطقی سی آپشن لگتی ہے۔ شاید آئین سازوں کے ذہن میں آج کا منظرنامہ نہیں تھا‘ اسی لیے ایسی صورت حال کا کوئی حل سامنے نہیں رکھا گیا اس لیے اس حوالے سے آج سب بند گلی میں ہیں۔