تحریک انصاف کا 278 ورکرز کی موت کا دعوی جھوٹ کا پلندہ نکلا

تحریک انصاف کی جانب سے اپنے احتجاج کی ناکامی کو 280 پارٹی ورکرز کے قتل کے جھوٹے الزام سے دھونے کی کوشش ناکام ہو گئی ہے اور یہ ثابت ہو گیا ہے کہ ڈی چوک پر موجود دھرنے کو ختم کروانے کے لیے جو آپریشن کلین اپ کیا گیا تھا اسکے بعد اسلام اباد کے دونوں بڑے ہسپتالوں یعنی پمز اور پولی کلینک میں صرف پانچ لاشیں لائی گئیں۔ ان میں سے تین افراد پولیس کے ساتھ کراس فائرنگ میں گولیاں لگنے سے مرے، ایک شخص کنٹینر سے گر کر فوت ہوا جبکہ ایک آدمی بھاگتے ہوئے گاڑی سے ٹکرا کر جان بحق ہوا۔

بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں تحریکِ انصاف کے بانی عمران خان کی رہائی کے لیے ناکام احتجاج اور مظاہرین پر حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد پاکستان میں سب سے زیادہ موضوعِ بحث پارٹی ورکرز کی مبینہ ہلاکتیں ہیں جن کا دعوی پی ٹی ائی کی قیادت نے کیا یے۔ تحریکِ انصاف کے مختلف رہنماؤں کی جانب سے کارکنوں کی ہلاکتوں کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ تعداد 20 سے 280 کے درمیان ہے۔ دوسری جانب حکومت کا دعویٰ ہے کہ رینجرز اور پولیس کے ’گرینڈ آپریشن‘ میں سکیورٹی اداروں کی جانب سے سرے سے گولی چلائی ہی نہیں گئی اور صرف انسو گیس اور ربڑ کی بلٹس استعمال کی گئی جس سے بندہ مرتا نہیں۔

ایسے میں سوال یہ ہے کہ منگل کی شب ہونے والی کارروائی میں کتنے لوگ جان سے گئے اور کتنے زخمی ہوئے اور کیسے؟ اس معاملے پر سب سے پہلا اور بھونڈا الزام تحریک انصاف کے رہنما سردار لطیف کھوسہ نے حامد میر کے پروگرام کیپیٹل ٹالک میں عائد کیا۔ انہوں نے دعوی کیا کہ آپریشن کلین اپ میں پارٹی کے 278 ورکرز مارے گئے جس کی تصدیق خود علی امین گنڈا پور نے کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گنڈاپور نے ہر پارٹی ورکر کے خاندان کے لیے ایک کروڑ روپے کی امداد کا اعلان کیا ہے اور یوں مارے جانے والے 278 ورکرز کے خاندانوں کو دو ارب 78 کروڑ روپے بطور معاوضہ ادا کیے جائیں گے۔ تاہم یہ بونگی مارتے ہوئے لطیف کھوسہ بھول گئے کہ 278 لاشوں کا دعوی کرنے والے علی امیں گنڈاپور تو آپریشن شروع ہوتے ہی سب سے پہلے موقع سے فرار ہوئے تھے اور انہوں نے مڑ کر پیچھے بھی نہیں دیکھا تھا۔

اہم ترین بات یہ ہے کہ جس وقت اپریشن کلین اب شروع ہوا تب ڈی چوک میں تحریک انصاف کا 10 ہزار ورکر موجود تھا، لیکن سوشل میڈیا پر ہلاکتوں کے حوالے سے دعوے کے حق میں کوئی ایک بھی ویڈیو سامنے نہیں آئی۔ بی بی سی کی نمائندہ فرحت جاوید کے مطابق جب ہلاکتوں کی گتھی سلجھانے کے لیے بی بی سی کی ٹیم نے اسلام آباد کے پولی کلینک اور پمز ہسپتال کا رخ کیا تو معلوم ہوا کہ پولی کلینک کی انتظامیہ کی جانب سے ہسپتال میں ایسے کسی فرد کی لاش لائے جانے کی تردید کی گئی جس کی ہلاکت مبینہ طور پر مظاہرین کے خلاف آپریشن میں ہوئی، لیکن ہسپتال کے ریکارڈ کے مطابق وہاں 26 نومبر کی شام کم از کم ایسے تین افراد کی لاشیں موجود تھیں جنھیں گولیاں لگی تھیں۔ہسپتال کے عملے نے بھی بتایا کہ ان میں سے ایک لاش بدھ تک پولی کلینک کے مردہ خانے میں ہی موجود تھی جبکہ دو لواحقین کے حوالے کر دی گئیں تھیں۔

اس حوالے سے اسلام اباد پولیس کا کہنا ہے کہ یہ لوگ سیکیورٹی فورسز پر فائرنگ میں ملوث تھے اور جوابی طور پر چلائی گئی ربڑ بلٹس سے زخمی ہوئے تھے۔ ان لوگوں کے مرنے کی وجہ زیادہ خون کا بہنا بتائی جا رہی ہے۔ اسی بارے میں بی بی سی نے وفاقی وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ پولیس یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ’مظاہرین پر فائرنگ نہیں کی گئی۔ فائرنگ کی گئی ہوتی تو لاشوں کا پوسٹ مارٹم بھی موجود ہوتا۔‘ تاہم پولیس حکام خود مانتے ہیں کہ انہوں نے پرتشدد مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ربڑ بلٹس کا استعمال کیا تھا لیکن ان سے لوگ مرا نہیں کرتے۔

پمز ہسپتال کی بات کی جائے تو ہسپتال کی انتظامیہ کی جانب سے بی بی سی کو ریکارڈ تک رسائی نہیں دی گئی تاہم یہ معلوم ہوا کہ وہاں بھی تحریکِ انصاف کے دو کارکنوں کی لاشیں لائی گئی تھیں جن کا تعلق شانگلہ اور مردان سے تھا۔ ان کے ورثا لاشیں ہسپتال سے لے جا چکے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان میں سے ایک شخص مبینہ طور پر کنٹینر سے گر کر ہلاک ہوا جبکہ دوسرا آپریشن کلین اپ کے دوران فرار یونے والی پی ٹی آئی قیادت کی ایک گاڑی سے ٹکرا کر مارا گیا۔

پمز کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق ’پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 66 ارکان جبکہ 33 عام شہری پمز میں لائے گئے جن میں سے زیادہ تر کو معمولی نوعیت کے زخم ہونے کی وجہ سے علاج کے بعد خارج کر دیا گیا جبکہ چند ایک کا علاج جاری ہے۔‘ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’اموات کی تعداد اور مظاہرین کے زخموں کی نوعیت سے متعلق سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبریں بے بنیاد ہیں۔‘

پی ٹی آئی کی جانب سے اموات کی کہانی اپنی پسپائی چھپانےکی کوشش ہے : احسن اقبال

پی ٹی آئی کی جانب سے 280 افراد کی ہلاکت کے دعوے کو ایک بھونڈا مذاق قرار دیتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ سید محسن نقوی نے کہا ہے کہ اگر پولیس یا رینجرز کی جانب سے گولیاں مارنے کے ثبوت موجود ہیں تو سامنے لائے جائیں۔ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے سیاست کرنے والی جماعت نے اب تک کوئی ایک بھی ایسی ویڈیو پوسٹ نہیں کی جس میں سیکیورٹی فورسز کے کسی اہلکار کو گولی چلاتے ہوئے دکھایا گیا ہو یا پی ٹی آئی کا کوئی ورکر مرتا ہوا دکھایا گیا ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور لوگ جان چکے ہیں کہ تحریک انصاف والوں کے جھوٹے دعووں کی حقیقت کیا ہے۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ پی ٹی آئی کے کارکنان کے پاس جدید اسلحہ موجود تھا اور مظاہرین نے بڑی تعداد میں پولیس اور رینجرز اہلکاروں کو نشانہ بنایا جس سے پونے 165 سے زائد زخمی ہوئے جبکہ پانچ کی شہادتیں ہوئیں۔

Back to top button