کیا خیبرپختونخوا بھی تحریک انصاف سے چھننےوالا ہے؟

الیکشن 2024 سے قبل سال 2018 کے عام انتخابات کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف شدید مشکلات اور مسائل دوچار ہے۔ بلے کا نشان بھی نہیں ہے اور عمران خان بھی جیل میں ہیں لیکن اس کے باوجود تحریک انصاف کا خیبر پختونخوا میں سیاسی گراف اوپر جا رہا ہے اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی جیت کے امکانات سب سے زیادہ نظر آتے ہیں۔ تاہم دوسری جانب مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت جے یو آئی اور اے این پی بھی اتحادی جماعتوں کے ساتھ ملکر بھرپور طریقے سے میدان میں موجود ہیں اور تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں کو ٹف ٹائم دے رہی ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ عام انتخابات میں تحریک انصاف خیبرپختونخوا میں قومی اسمبلی کی 45 میں سے 37 سیٹیں جیتی تھی۔ جبکہ 9 مئی کے واقعات کے بعد سے پی ٹی آئی زیر عتاب ہے اور الیکشن کمیشن نے بلے کا نشان بھی واپس لے لیا ہے۔ ساتھ عمران خان جیل میں سزا کاٹ رہے ہیں۔ ان تمام مشکلات کے باوجود بھی تجزیہ کاروں کے مطابق تحریک انصاف اب اب بھی صوبے میں سب مقبول ترین جماعت ہے اور اس کے سب سے زیادہ نشتیں جیتنے کے امکانات روشن ہیں۔
واضح رہے کہ خیبر پختونخوا 4 زون میں تقسیم ہے۔ میدانی زون میں اضلاع پشاور، چارسدہ، مردان صوابی شامل ہیں۔ ہزارہ زون میں ہری پور سے لے کر کوہستان تک اضلاع شامل ہیں۔ مالاکنڈ زون میں مالاکنڈ سے لے کر چترال جبکہ کوہاٹ سے لے کر ڈی آئی خان تک کے علاقے جنوبی زون میں شامل ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ہر زون میں تمام سیاسی جماعتوں کا ووٹ بینک موجود ہے لیکن تحریک انصاف کا ووٹ بینک سب سے زیادہ ہے اور وقت کے ساتھ اس میں اضافہ ہوا ہے جبکہ دیگر جماعتوں کے ووٹ بینک میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ وقت کے ساتھ ملک کی 2 بڑی سیاسی جماعتیں ن لیگ اور پی پی پی خیبرپختونخوا میں کمزور ہوئی ہیں کیونکہ ن لیگ کا فوکس پنجاب اور پی پی پی کا سندھ ہے اور دونوں جماعتوں نے کے پی کو مکمل نظر انداز کیا جس کا فائدہ تحریک انصاف کو ہوا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق خیبر پختونخوا کے سینٹرل زون کو کنگ زون بھی کہا جانا ہے اور جو جماعت سینٹرل زون سے کامیابی حاصل کرتی ہے وہ صوبے میں حکومت بنا لیتی ہے۔ سنہ 2002، 2008 اور 2013 میں یہی صورت حال رہی۔ تاہم اب تحریک انصاف سینٹرل زون میں بلے کے نشان کے بغیر بھی سب سے بڑی جماعت ہے جبکہ دیگر جماعتیں وہاں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پی ٹی آئی کے لیے بلے کے بغیر سنہ 2018 کی طرح نشتیں جیتنا شاید مشکل ہو لیکن پھر بھی دیگر جماعتوں کی نسبت وہ زیادہ نشتیں حاصل کرلے گی۔ پشاور کے قومی اسمبلی کی 5 میں سے 3 پر پی ٹی آئی مضبوط ہے جبکہ 2 پر جے یو آئی کی پوزیشن اچھی ہے جبکہ پشاور میں صوبائی کی 13 نشتوں پر بھی پی ٹی آئی کی اور 2 پر اے این پی کی پوزیشن مضبوط ہے۔ پشاور میں اے این پی اور جے یو آئی پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دے سکتی ہیں اور ان کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔ این اے 32 سے غلام بلور کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ مردان میں علی محمد خان کی پوزیشن مضبوط ہے جبکہ عاطف خان اور امیر حیدر خان ہوتی کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق مالاکنڈ میں بھی تحریک انصاف خاصی مقبول ہے لیکن محمود خان کے جانے سے پارٹی کو وہاں کچھ حد تک نقصان ہوا ہے۔ گزشتہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کو مالاکنڈ میں کامیابی ملی تھی۔مالاکنڈ کے کچھ اضلاع میں دیگر جماعتیں زیادہ مضبوط ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چترال میں ن لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے جبکہ دیر کے کچھ حلقوں پر جماعت اسلامی کی پوزیشن مضبوط ہے جہاں پی ٹی آئی بھی اچھا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہے جبکہ سوات میں مجموعی طور پر پی ٹی آئی مضبوط ہے۔ شانگلہ واحد ضلع ہے جہاں ن لیگ کی پوزیشن بہتر ہے اور صوبائی صدر امیر مقام کی گرفت مضبوط ہے۔
خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع کو جے یو آئی کا گڑھ کہا جاتا ہے لیکن سنہ 2013 اور سنہ 2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف نے جنوبی اضلاع سے سب کا صفایا کردیا تھا۔ وہاں سال 2018 میں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو بھی شکست ہوئی تھی۔ تاہم مبصرین کے مطابق سنہ 2018 کے مقابلے میں جے یوآئی کی پوزیشن بہت بہتر ہوئی ہے جس کا ثبوت حالیہ بلدیاتی انتخابات ہیں جن میں پی ٹی آئی حکومت کی باوجود
جے یوائی کو سب سے زیادہ کامیابی ملی۔