ڈرامہ تیرے بن سپر ہٹ ہونے کی اصل وجہ کیا ہے؟

’تیرے بن‘ میں مرتسم کی بہن کا کردار ادا کرنے والی اداکارہ حرا سومرو کا کہنا ہے کہ اس ڈرامے کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس ڈرامے کو اچھے چہروں کے بجائے اچھے اداکار ملے ہیں، حِرا کا ماننا ہے کہ اس ڈرامے کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس میں کام کرنیوالے ہر کردار کو موقع دیا گیا کہ وہ اپنے مطابق کردار کو نبھائے۔
دوسری جانب ملک زبیر اور انس کا کردار ادا کرنے والے آغا مصطفی کو بھی اپنے کردار کی وجہ سے کافی پسند کیا گیا ہے، آغا اس ڈرامے میں ایک ولن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے کئی لوگ ان پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔ لوگ سوشل میڈیا پر آ کر مجھے ماں بہن کی گالیاں دیتے ہیں، کبھی میری شکل پر بات کرتے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ میرا ناک موٹا ہے، آغا کا کہنا ہے کہ لوگوں کو چاہئے کہ وہ اُن کے کردار پر تنقید کریں مگر اُن کی ذات پر ایسی باتیں کرنا غلط ہے۔
ڈرامہ ’تیرے بن‘ میں کئی ایسے لمحات آئے ہیں جہاں شائقین کو یہ محسوس ہوا ہے کہ بہت سی غلط چیزوں کو اس ڈرامے میں نمایاں کیا گیا ہے، جس کا ذکر بھی شائقین نے سوشل میڈیا پر کُھل کر کیا، گھر سے بھاگنا اور بیوی کا شوہر کو تھپڑ مارنا، حِرا نے اس بات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے کئی بار اس بات کو واضح کیا ہے کہ ’اس ڈرامے کے ذریعے ہم گھر سے بھاگنے کی حوصلہ افزائی نہیں کر رہے، ہم صرف یہ دکھانا چاہتے تھے کہ لڑکی گھر سے تب بھاگتی ہے جب اُس کو سوچنے یا کچھ کرنے کی آزادی نہیں ہوتی۔
آغا مصطفی نے سنگِ مر مر میں بھی منفی کرادر ادا کیا تھا۔ تیرے بن میں ملک زبیر کا کردار بھی اس سے ملتا جلتا ہے۔ آغا کو جب یہ ڈرامہ آفر کیا گیا تو وہ زندگی کے مشکل وقت سے گزر رہے تھے، اس وجہ سے اُنھوں نے سکرپٹ نہیں پڑھا تھا۔’میں اُس وقت زندگی کے مشکل وقت میں تھا، اور مجھے جب بلایا گیا تو میں نے ڈرامہ کرنے کی حامی بھر لی، اور اُس وقت سکرپٹ نہیں پڑھا، اور جب میں نے خود کو ہمت دی کہ مجھے یہ پڑھنا ہے تو مجھے بہت مزہ آیا، آغا نے ڈرامے میں پہنے جانے والے کپڑوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اُن سمیت دوسرے کئی اداکاروں نے کپڑوں کا انتخاب خود کیا تھا، ہم نے ایسی بہت سی چیزیں خود کیں جو سکرپٹ کا حصہ نہیں تھیں۔
تجربہ کار انسان کے ساتھ کام کر کے انسان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ اور اپنے ہنر کو مزید نکھار سکتا ہے، آغا اور حرا نے بی بی سی کو دیے گئے اس انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا کہ تیرے بن ڈرامے میں کام کرنے کی وجہ سے اُن کو بشریٰ انصاری، یمنہ زیدی اور وہاج علی سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ حِرا کا کہنا تھا سیٹ پر ان میں سے کھبی بھی کسی ادکار کی وجہ سے اُن کو انتظار نہیں کرنا پڑا۔
آغا کا تعلق فوجی خاندان سے ہے۔ آغا مصطفی نے سب سے پہلا شو تھیٹر میں کیا۔ ان کو بھی کئی لوگوں کی طرح شوبز انڈسڑی میں آنے کے لیے بہت محنت کرنی پڑی۔ آغا کے والد ان کے شوبز انڈسڑی کو جوائن کرنے کے خلاف تھے۔ جس وجہ سے اُن کو گھر چھوڑنا پڑا۔
میں ہمشہ سوچتا تھا کہ میں جو بھی کام کر لوں میرے والد مجھ سے کبھی خوش نہیں ہوتے، مگر تیرے بن کی 40ویں قسط کے بعد میرے والد کی مجھے کال آئی اور اُنھوں نے مجھے کہا کہ تم نے اس ڈرامے میں بہت اچھا کام کیا ہے۔ آغا کے مطابق 31 سال میں پہلی بار اُنھیں والد کی طرف سے وہ پذیرائی ملی جس کا وہ کب سے انتظار کر رہے تھے مگر صرف آغا ہی نہیں بلکہ حرا کو بھی اپنا کرئیر بنانے کے لیے شادی ہونے کا انتظار کرنا پڑا۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ابھی بھی شوبز انڈسڑی میں کام کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ حرا کا بھی ماننا ہے کہ شاید پاکستان میں اس شعبے کو عام کرنے میں مزید 100 سال لگ سکتے ہیں۔
حرا کا کہنا ہے کہ اُن کیلئے گھر اور کام ایک ساتھ مینج کرنا انتہائی مشکل ہے۔ میں کھبی کبھی پوری رات کام کر کے صبح جب گھر آتی ہوں تو میرا بچہ اگر جاگ رہا ہے تو میں سو نہیں سکتی مجھے اگلے دن رات میں سونے کا وقت ملتا ہے، حرا اور آغا کا کہنا ہے کہ وہ دونوں ہیرو یا ہیروئن کا کردار کرنے کی خواہش سے زیادہ اچھا کردار کرنے کا شوق رکھتے ہیں۔ مگر پاکستان میں جو سکرپٹس بنتے ہیں اُس میں ہیرو اور ہیروئن کے کرداروں کی بجائے دوسرے کردار اچھے نہیں لکھے جاتے۔ اُنھیں امید ہے کہ جلد ہی ایسے
PTIامریکہ سے ملکر فوج مخالف سازش کرتے پکڑی گئی
سکرپٹس بھی بنانا شروع ہو جائیں گے۔