شہباز کودھکا دینے والے پیچھے تونہیں ہٹ جائیں گے

عمران خان کی جگہ لینے والے نئے وزیراعظم شہباز شریف کو درپیش چیلنجز کا احاطہ کرتے ہوئے سینئر اینکر پرسن غریدہ فاروقی نے کہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ وقت آ جائے جب شہباز پوچھیں کہ مجھے دھکا کس نے دیا تھا، اور جب وہ مُڑ کر دیکھیں تو کوئی نظر نہ آئے۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں غریدہ فاروقی کہتی ہیں کہ حالات ایسے ہیں کہ اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔ خطرہ بہرحال موجود ہے۔ انکا کہنا ہے کہ عمومی طور پر ہر نئی آنے والی حکومت کے لیے ابتدائی سو دنوں کا ایک ہنی مون پیریڈ موجود ہوتا ہے لیکن پاکستان کی تاریخ میں غالباً شہباز شریف کی واحد حکومت ہے جسے یہ لگژری حاصل نہیں اور اس حکومت کی سکروٹنی قومی اسمبلی میں شہباز شریف کے وزیراعظم کا الیکشن جیتنے کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ شہباز نے قومی اسمبلی میں بطور وزیراعظم اپنی پہلی تقریر میں عوام کو مایوس نہیں کیا اور عوامی فلاحی روڈ میپ دینے کے ساتھ ساتھ اپنا بھرپور حکومتی پلان بھی پاکستان کے سامنے رکھ دیا۔ اس سے ایک بات تو واضح ہو گئی کہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر اس بار آنے والے کی تیاری صرف تقریر کی حد تک نہیں ہے بلکہ عملی اقدامات بھی مکمل ہیں۔
لیکن بقول غریدہ فاروقی، شہباز کے سامنے خصوصی اور انکے اتحادیوں کے سامنے عمومی طور پر؛ چیلنج صرف ملکی حالات ٹھیک کرنا، معیشت کی بہتری اور مہنگائی سے عوام کو ریلیف دینا ہی نہیں ہے۔ سیاسی اعتبار سے عمران کا مقابلہ کرنا، جلد الیکشن کے مطالبے کو ہینڈل کرنا، مخلوط حکومت کی تشکیل اور پھر طویل عرصے تک اسے برقرار رکھنا یہ سب ایسے چیلنجز ہیں کہ قدم ذرا سا بھی سِرکا تو گہری کھائی میں گرنے کے خطرات موجود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شہباز کا سب سے بڑا چیلنج مخلوط حکومت کو چلانا ہوگا۔ اسکے علاوہ انہیں درپیش ایک اور چیلنج نوازشریف کی واپسی کا بھی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اس نکتے پر فی الحال نہ تو کوئی واضح ہاں ہے اور نہ ہی واضح نہ ہے۔ لیکن سیاسی حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں اسٹیبلشمنٹ کی منظوری سے زیادہ نوازشریف کی واپسی کا قانونی اور اخلاقی جواز زیادہ وزن کا حامل ہے۔ اگر نواز فوری وطن واپس آتے ہیں تو جیل جائے بغیر چارہ نہیں جو ظاہر ہے ن لیگ کے لیے کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔ اور اگر واپسی کی صورت میں وہ جیل نہیں بھیجے جاتے تو بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
غریدہ فاروقی کا کہنا ہے تو اِسی تناظر میں مسلم لیگ (ن) کی خواہش اور کوشش ہے کہ قانون و انصاف کی وزارت اُنہی کے پاس رہے تاکہ اس مسئلے کو بہتر انداز سے حل کیا جا سکے۔ لیکن جہاں تک میری اطلاعات ہیں، فوری الیکشن کی صورت میں نواز شریف کی وطن واپسی ممکن نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے شہباز شریف کو ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت درپیش رہے گی۔ عمران خان کے فوری الیکشن کےمطالبے سے نمٹنا بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس کے لیے قلیل مدت سٹرٹیجی کے طور پر فی الحال تو شہباز حکومت جمع مسلم لیگ(ن) کو تحریکِ انصاف کو انگیج رکھنا ہو گا۔
اس انگیجمنٹ کے نتیجے میں وقت حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن وقت بہرحال اگست، ستمبر تک ہی موزوں ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے پہلے ہی حالات کوئی غیر متوقع اور انہونا موڑ لے لیں جس کے لیے شہبازشریف کو ہمہ وقت تیار اور ہوشیار رہنے کی ضرورت رہے گی۔
غریدہ فاروقی بتاتی ہیں کہ اس وقت عمران اور ان کے سائے میں پوشیدہ قوتوں کی بھرپور کوشش ہے کہ شہباز شریف کو بطور وزیراعظم چلنے نہ دیا جائے اور ناکام بنا دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ہر قسم کا حربہ استعمال کرنے کا پلان بھی تیار کیا جا چکا ہے۔ بظاہر جس قسم کی سپورٹ وزیراعظم شہباز کے لیے موجود ہے؛ مسائل کا آغاز بھی اندرون سے ہی ہو سکتا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ چند روز قبل کچھ دوستوں سے حالاتِ حاضرہ پر نشست ہوئی تو ایک انتہائی باخبر دوست نے یہ دلچسپ جملہ پھینکا کہ عمران خان سے بھی پہلے اسٹیبلشمنٹ کی پہلی محبت تو ہمیشہ سے شہبازشریف ہی رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ والی محبت کتنا عرصہ برقرار رہتی ہے۔ ویسے جہاں محبت ہو وہاں ایک ولن کا ہونا لازم و ملزوم ہے اور اس معاملے میں بھی ولن پردے کے سامنے اور پسِ پردہ ہر قسم کے سازشی تانے بانے بُننے میں مسلسل مصروفِ عمل ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی ’شہبازی محبت‘ کا تذکرہ چل ہی نکلا ہےتو یہ واقعہ بھی آن ریکارڈ آ ہی جائے کہ جنرل مشرف جیسا شریف فیملی کا کٹر مخالف بھی شہبازشریف کی صلاحیتوں اور کامیابیوں کا معترف اور گرویدہ تھا اور اس بات کا اعتراف اس نے کئی بار گورنر پنجاب خالد مقبول کے سامنے بھی کیا۔
بقول غریدہ، اس حقیقت کے تسلیم کرنے میں تو کسی کو جھجھک اور ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے کہ بطور منتظم شہباز شریف کی کامیابیاں پوری دنیا تسلیم کرتی ہے، انہیں نہ صرف کام کرنے کا طریقہ بلکہ دوسروں سے کام کروانےاور کام نکلوانے کا فن بھی آتا ہے۔ انکے زیر نگرانی جس جِنّاتی ’شہباز سپیڈ‘ سےحکومتی معاملات کو چلایا جاتا ہے آج پاکستان کو اسی کی اشد ضرورت ہے۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے عمران، شہباز شریف سے خوفزدہ اور نالاں ہیں۔ دراصل عمران خان نے بھرپور کوشش سے ایک ایسا بیانیہ اور تاثر تشکیل دے رکھا تھا جس کے مطابق ان سے قبل آنے والے اور ان کی حریف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے تمام وزرائے اعظم سب نکمّے، نااہل اور چورڈاکو تھے۔ اس بیانیے اور تاثر کی تشکیل میں عمران نے بلاشبہ انتہائی کمال کی مہارت اور محنت کو بروئے کار لایا تھا۔ شہبازشریف کے وزیراعظم بن جانے کی صورت میں اس بیانیے کا دھڑن تختہ ہو جانا تھا خصوصا ًجب کارکردگی کی صورت میں حقائق عوام کے سامنے آ جاتے۔ اسی لیے عمران اور ان کے سائے میں پوشیدہ قوتوں کی بھرپور کوشش ہے کہ شہباز شریف کو بطور وزیراعظم چلنے نہ دیا جائے اور ملک میں انتشار کی ایسی فضا کو مضبوط سے مضبوط تر بنا دیا جائے کہ حکومت کے پاس گھٹنے ٹیک دینےکے علاوہ اور کوئی چارہ نہ ہو۔
انہی تمام وجوہات کی بِنا پر وزیراعظم شہباز شریف کے سامنے ایک ایسا میدان ہے جہاں انہیں چومکھی لڑائی لڑنی ہے اور بظاہرسامنے موجود چیلنجز کے ساتھ ساتھ چند خفیہ حملوں سے بھی نمٹنا ہو گا جن میں سے عین ممکن ہے کوئی ایک مہلک بھی ثابت ہونےکی طاقت رکھتا ہو۔ فی الحال تو زیادہ توجہ عوام کو ریلیف دینے پر ہی مرکوز رکھنی ہو گی جس دوران بجٹ تیاری کا کڑا مرحلہ بھی درپیش ہو گا۔ غریدہ کے بقول، شہباز عوام کو ریلیف دینے میں کامیاب ہو گئے تو یہی ان کی سب سے بڑی کامیابی بھی ہو گی اور یہی ان کے لیے اب سے بڑا سیاسی خطرہ بن کر بھی سامنے آئے گا اور ان کی حکومت گرانے کی کوشش اور سازش مزید تیز کر دی جائے گی۔ بقول غریدہ، دو ووٹوں کی اکثریت پر کھڑی شہباز حکومت کے لیے آنے والا ہر دن نئے چینج لے کر آئے گا لیکن کہیں ایسا نہ ہو شہباز شریف پوچھیں مجھے دھکا کس نے دیا تھا۔۔۔ اور مُڑ کر دیکھیں تو کوئی نظر نہ آئے۔