استعفیٰ دینے والے عامر لیاقت کو قومی اسمبلی کون لایا؟


پچھلے ماہ قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دے کر اپنے ایک ٹویٹ میں تحریک انصاف کو خدا حافظ کہنے والے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین ایک مرتبہ پھر یوٹرن مارتے ہوئے 17 نومبر کو نہ صرف قومی اسمبلی جا پہنچے بلکہ وہاں اپنے دئیے گئے ریمارکس کی وجہ سے ٹویٹر پر بھی ٹاپ ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ ٹوئٹر پر ’ہم لائے گئے ہیں‘ کیوں ٹاپ ٹرینڈز میں سے ایک بنا، یہ جاننے کے لیے قومی اسمبلی کے باہر بنائی گئی ایک ویڈیو کا حال بتانا ضروری ہے۔ یہ ویڈیو تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت حسین کی ہے جو استعفیٰ دینے کے باوجود 17 نومبر کو دیگر اراکین اسمبلی کی طرح پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پہنچے تو انہیں میڈیا نے آن گھیرا۔ ان سے سوال کیا گیا کہ آپ قومی اسمبلی سے استعفیٰ دینے اور حکومت سے اتنے شکوے اور شکایات کے باوجود مشترکہ اجلاس میں کیسے آگئے؟ اس سوال کے جواب میں عامر لیاقت نے ہنستے ہوئے کہا کہ ’بھائی ہم آئے نہیں، بلکہ لائے گئے ہیں اور بہت اہتمام سے لائے گئے ہیں۔‘ جب صحافیوں نے ان سے سوال کیا کہ انہیں کون لایا ہے تو کہنے لگے ’جو لاتے ہیں وہی لائے ہیں۔‘ یہاں عامر لیاقت کا واضح اشارہ خفیہ ایجنسیوں کی جانب تھا۔
بعد ازاں قومی اسمبلی کے اجلاس میں متنازعہ قانون سازی پر اپوزیشن اور حکومتی اراکین کے مابین تلخی بڑھی تو عامر لیاقت حسین عمران خان کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نمبر بنانے کے لیے اپوزیشن کے ساتھ منہ ماری اور ہاتھا پائی پر اتر آئے۔ چنانچہ جب اسپیکر اسد قیصر کی دھونس اور دھاندلی سے قانون سازی کا عمل مکمل ہوا تو وزیراعظم نے عامر لیاقت کی خواہش پر ان کو ملاقات کا موقع بھی دے دیا۔ یاد رہے عامر لیاقت حسین پچھلے کئی ماہ سے اپنی جماعت سے ناراض تھے اور ایک ماہ پہلے استعفیٰ بھی دے چکے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں آنے سے پہلے بھی عامر لیاقت نے عمران سے اظہار ناراضی کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں گلہ کیا کہ وزیر اعظم عمران خان نے ہر رکن اسمبلی سے ملاقات کی لیکن ان کے پاس آئیکون آف کراچی، یعنی عامرلیاقت، کے لیے وقت نہیں، جس نے کہ پی ٹی آئی کو انتہائی اہم سیٹ جتوائی اور پرانے ساتھی ڈاکٹر فاروق ستار کو ہرایا۔‘ انہوں نے لکھا کہ ’میں نے وزیراعظم اور خاتون اول یعنی بھابھی کا ہر بار دفاع کیا لیکن میرے لیے ان کے پاس وقت نہیں۔
پھر چند گھنٹوں بعد قومی اسمبلی میں اپوزیشن سے ہاتھاپائی کرنے اور وزیراعظم سے ملاقات کے بعد انھوں نے ٹوئٹر پر عمران خان کے ساتھ اپنی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ ملاقات اک بہانا ہے، پیار کا سلسلہ پرانا ہے، ناراض ہوں مگر منالیتے ہیں، کھوکر بھی ان ہی کو پانا ہے۔‘ لیکن خود کو ’آئیکون آف کراچی‘ قرار دینے پر سوشل میڈیا پر ان کا کافی مذاق بھی بنایا جارہا ہے۔
خواجہ برہان نامی صارف نے طنزاً کہا کہ ’اس میں عمران خان کا ہی نقصان ہے کہ وہ آئیکون آف کراچی سے نہیں ملتے۔‘ ایک اور صارف نسیم خاور نے عامر لیاقت سے کہا ’اگر آپ واقعی آئیکون آف کراچی ہیں تو اگلا الیکشن آزاد امیدوار کے طور پر لڑیں اور جیتیں۔ صحافی علینہ شگری نے لگے ہاتھوں اپنے فالورز کو یہ بھی بتادیا کہ ’آئیکون آف کراچی نے مجھے ٹوئٹر پر بلاک کردیا ہے۔
ایک اور صارف نے ٹوئٹر پر لکھا کے عامر لیاقت نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ تھالی کے بینگن اور بے پیندے کے لوٹے ہیں جو کبھی بھی اپنی بات پر قائم نہیں رہتے۔ یاد رہے کہ چار اکتوبر 2022 کو تحریک انصاف کے انتخابی ٹکٹ پر منتخب ہونے والے عامر لیاقت حسین نے اپنی نشست سے احتجاجا استفعیٰ دے دیا تھق۔ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں عامر لیاقت نے کہا تھا کہ انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست سے اپنا استعفی بھیج دیا ہے لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ استعفی کس کو بھیجا گیا۔ قواعد و ضوابط کے مطابق استفعیٰ اسپیکر قومی اسمبلی کو بھیجا جانا چاہئیے۔ اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی سے استعفی ارسال کردیا ہے۔
اللہ تعالی عمران خان اور پی ٹی آئی کا حامی و نا صر ہو ۔ اللہ حافظ۔ تاہم 17 نومبر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے پہلے انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ یہاں آئے نہیں ہیں بلکہ لائے گئے ہیں اور انہیں وہی لوگ لے کر آئے ہیں جو کہ لانے کا کام کرتے ہیں۔ یہاں ان کا اشارہ واضح طور پر خفیہ ایجنسی کی جانب تھا۔

Back to top button