کیا مری میں اموات کاربن مونو آکسائیڈ گیس سے ہوئیں؟
مری کی برفباری میں پھنس کر اپنی گاڑیوں میں ہی مر جانے والے 24 افراد کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ یا تو زہریلی گیس کاربو مونو آکسائیڈ کے باعث دم گھٹنے سے ہلاک ہوئے یا پھر ہائپو تھرمیا یعنی شدید سردی کی وجہ سے مارے گے۔ لیکن اس بارے میں کوئی حتمی رائے اس لیے نہیں دی جاسکتی کہ کسی بھی مرنے والے کا پوسٹ مارٹم نہیں کیا گیا۔
تاہم طبی ماہرین کہتے ہیں کہ مری کے واقعے میں گاڑیوں میں کاربن مونو آکسائیڈ بھرنے اور دم گھٹنے سے اموات ہونے کا امکان ذیادہ ہے کیونکہ تمام لاشوں پر گرم کپڑے موجود تھے۔ انکا کہنا ہے کہ گاڑی میں کاربن مونو آکسائیڈ جیسی زہریلی گیس بھر جائے تو اس کو محسوس بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کی کوئی بو نہیں ہوتی۔ یوں اس گیس میں سانس لینے سے انسان پہلے غنودگی کا شکار ہوتا ہے اور پھر بے ہوشی کی حالت میں ہی اس کی جان چلی جاتی ہے۔
بتایا جا رہا ہے کہ زیادہ تر ہلاکتیں گلڈنہ کے علاقے میں برف میں پھنسی چار گاڑیوں میں ہوئیں۔ گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ترجمان احسن حمید کے مطابق گلیات میں صرف ایک روز میں تین فٹ برفباری ہوئی جبکہ دوسرے سپیل کے دوران جمعے سے پہلے چار روز تک ہونے والے برفباری مجموعی طور پر ڈھائی فٹ تھی جس نے نظام زندگی کو تباہ کر کے رکھ دیا۔انکا کہنا تھا کہ مری میں ہلاکتیں ہائپوتھرمیا کے باعث ہوئیں یا کاربن مونو آکسائیڈ کے سبب دم گھٹنے سے ہوئيں، اس کا فیصلہ طبی جانچ یا پوسٹ مارٹم سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن انکامکہنا تھا کہ گاڑیوں میں دم گھٹنے یا کاربن مونو آکسائیڈ میں سانس لینے سے دنیا بھر میں اموات واقع ہوتی رہتی ہیں۔ اسی لیے گھروں اور گاڑیوں میں اس سے متعلق احتیاط برتنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ شدید برفباری کے باعث گاڑیاں برف میں پھنس چکی تھیں اور ان کے دروازے بھی نہیں کھل پا رہے تھے دوسرا ٹھنڈ سے بچنے کے لیے کار سواروں نے اپنے شیشے بھی چڑھا رکھے تھے۔ ایسے میں گاڑیوں کے سائلنسر بھی برف میں دب چکے تھے اور جو کاربن مونو آکسائیڈ انجن سے باہر نکلنا تھی وہ واپس کاروں میں جا کر اموات کا باعث بنی ہو گی۔ یاد رہے کہ کاربن مونو آکسائیڈ ایک بے رنگ، بے ذائقہ، بغیر بو والی گیس ہے۔ اس میں سانس لینا مہلک یا طویل مدتی صحت کے مسائل کا سبب ہو سکتا ہے۔ کاربن مونو آکسائیڈ زہر کی علامات دیگر بیماریوں سے ملتی جلتی ہو سکتی ہیں، جیسے فوڈ پوائزننگ یا بغیر بخار والا فلو۔
امریکی ادارے کنزیومر پروڈکٹ سیفٹی کمیشن کا کہنا ہے کہ کاربن مونو آکسائیڈ کی ہلکی مقدار سے سر میں درد، تھکان، سانس لینے میں کمی، متلی، چکر محسوس ہو سکتے ہیں لیکن زیادہ مقدار انسانی جسم میں جانے سے قے، اعصاب کے توازن کا بگڑنا، ہوش کھونا اور موت واقع ہو جانا شامل ہے۔ انجن سے چلنے والے آلات اور مشینیں جیسے پورٹیبل جنریٹر، کاریں، لان کی گھاس کاٹنے والی مشینیں اور پاور واشر وغیر بھی کاربن مونو آکسائیڈ پیدا کرتے ہیں۔ کاروں میں کاربن مونو آکسائیڈ اگزاسٹ کے نظام میں لیک کی وجہ سے پیدا ہو سکتے ہیں یا پھر اگر کسی وجہ سے اخراج کا نظام بند ہو جائے تو یہ گاڑی کے اندر آنے لگتے ہیں۔
اسی لیے عام طور پر منع کیا جاتا ہے کہ گاڑیوں کا ایئر کنڈیشنر چلا کر اور تمام دروازے بند کر کے نہ سوئیں کیونکہ لیکیج کی صورت میں یہ عمل مہلک ہو سکتا ہے۔ عام حالات میں بھی یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ کاربن مونو آکسائیڈ زہر سے بچنے کے لیے آپ کار کے اخراج کے نظام کی سال میں ایک بار ضرور جانچ کرائیں۔ یہ بھی۔مشورہ دیا جاتا ہے کہ بند گیراج میں کبھی بھی کار یا ٹرک کو آن نہ کریں، ہمیشہ دروازے کھول دیں تاکہ تازہ ہوا مل سکے۔ اور اگر آپ گاڑی کے پچھلے دروازے یا ٹیل گیٹ کو کھولیں تو کار کی کھڑکیوں اور شیشوں کو بھی کھول دیں تاکہ ہوا باہر نکلتی رہے کیونکہ اگر صرف پچھلا دروازہ کھلا ہو گا تو عین ممکن ہے کہ اگزاسٹ سے نکلنے والی گیس کار کے اندر کھنچی چلی آئے۔
جہاں تک مری سانحے کا تعلق ہے تو وہاں گاڑیاں برف میں اتنی زیادہ دھنس گئی تھیں کہ سائلنسر کا منھ بند ہو جانا بعید از قیاس نہیں۔ اس کے علاوہ باہر کی سردی سے بچنے کے لیے گاڑی کے انجن کا آن رکھنا بھی فطری نظر آتا ہے۔ ایسے میں کاربن مونو آکسائیڈ کا گاڑیوں میں پھیل جانا اور اندر کی فضا کا زہر آلود ہو جانا فطری ہو جاتا ہے۔
مری سانحے کے حوالے سے بہت سے صارفین نے ٹوئٹر پر ان خدشات کا اظہار کیا ہے۔
کملیش سنکھ تاؤ لکھتے ہیں کہ مری میں جو کچھ ہوا وہ اس غلطی کی وجہ سے ہوا جو ہم اکثر دہراتے ہیں۔ ہم۔لوگ ٹھنڈ سے بچنے کے لیے کار کے ہیٹر کو آن رکھتے ہیں۔ لہکن برفانی علاقے میں برف کی تہیں ایگزاسٹ کو بند کر دیتی ہیں اور یوں ایگزاسٹ کی گیس کار کے کیبن میں بھر جاتی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ کاربن مونوآکسائیڈ کا زہر میٹھا اور اس کی رفتار دھیمی ہوتی ہے، اس کے شکار کو پتا بھی نہیں چلتا اور وہ موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔‘
کیا پرویز رشید نے صحافیوں کو محاورتاً گالیاں دیں؟
پاکستان میں قومی شاہراہ اور موٹروے پولیس کے انسپکٹر جنرل انعام غنی نے ٹویٹر پر لکھا ہے کہ ’خدا نہ کرے اگر آپ کی کار برف میں پھنس جائے تو اور آپ کا انجن چل رہا ہو تو آپ کھڑکی کو ہلکے سے کھول کر اگزاسٹ سائلنسر پائپ سے برف صاف کر دیں۔‘ ڈاکٹر فہیم یونس نے لکھا کہ ’ابھی تک واضح نہیں کہ مری ہونے والی اموات ٹھنڈک سے ہوئی ہیں یا کاربن مونو آکسائیڈ کے زہر سے؟‘ انھوں نے مزید لکھا: ’کاربن مونو آکسائیڈ بے رنگ اور مہلک ہے۔ اگر رکی ہوئی کار برف میں دھنس جاتی ہے تو سائلنسر بند ہونے سے کار میں سوار کی جلد موت واقع ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر ارسلان حیدر نے لکھا ہے کہ مری میں 20 سے زیادہ لوگوں کی موت یخ بستہ ٹھنڈک سے نہیں ہوئی۔
انھوں نے لکھا ’یہ سب کاربن مونو آکسائیڈ کے زہر سے مرے ہیں اور اس کی وجہ ہوا کا نہ گزرنا، انجن کا چلتے رہنا اور سائلنسر کا منھ بند ہونا ہے۔ اگر لوگوں نے صرف ذرا سی کھڑکی کھلی رکھتے تو۔‘
اب سوال یہ ہے کہ اگر آپ شدید برفباری میں پھنس جائیں تو کیا کریں؟ پوری دنیا میں برف پڑنے سے پہلے تنبیہ جاری کی جاتی ہے کہ اس علاقے میں موسم کبھی بھی خراب ہو سکتا ہے اس لیے گھر میں رہیں لیکن مری میں الرٹ جاری کرنے میں بہت دیر کر دی گئی۔ اس بارے میں ماہر ماحولیات توفیق پاشا معراج نے بتایا کہ برفباری کی صورت میں انتظامیہ کو سب سے پہلے مری جانے والی سڑکیں بند کرنی چاہیے تھیں۔وہ اس حوالے سے چند احتیاطی تدابیر بتاتے ہیں جن پر عمل کر کے برفباری میں پھنسے سیاح مزید نقصان سے بچ سکتے ہیں۔ انکا کہنا یے کہ جو لوگ گاڑیوں میں اپنے بچوں یا گھر والوں کے ساتھ بند ہیں وہ مدد آنے تک اپنی گاڑی کا پیٹرول یا ڈیزل بچانے کے لیے اسے بند کر دیں۔ گاڑی کو کسی کی مدد سے سڑک کے کنارے پر پارک کریں نہ کہ بیچ راستے میں، ٹائر پر لوہے کی زنجیر لگا دیں اور ہو سکے تو گاڑی کو گرم رکھنے کے لیے ہیٹر نہ چلائیں۔
لوگ بھری گاڑی میں بھی ہیٹر چلا دیتے ہیں جس سے گاڑی میں گھٹن ہونے کے چانسز بڑھ جاتے ہیں اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ اگر آپ ایک گاڑی میں دو سے تین لوگ ہیں تو ویسے ہی انسانی جان کی گرمی سے گاڑی اندر سے گرم ہی رہے گی۔ کسی بھی صورت اپنی گاڑی کو چھوڑ کر پیدل نہ نکلیں کیونکہ آپ جہاں کھڑے ہیں اس سے آگے موسم کی کیا صورتحال ہے اس کا اندازہ آپ نہیں لگا سکتے۔ سڑک پر تنہا پھنسے سے گاڑی کے اندر بیٹھنا قدرے بہتر اور محفوظ ہے لہٰذا مدد کا انتظار کریں۔ تاہم سچ تو یہ ہے کہ مری میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے والے 24لوگ اپنی گاڑیوں میں بیٹھے مدد پہنچنے کے انتظار میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔