کیا سپریم کورٹ مشکوک خط کے تنازعے میں الجھے گی؟

وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے خلاف بیرونی سازش کا بیانیہ آگے بڑھاتے ہوئے اب نہ صرف سابق وزیراعظم نواز شریف کو اس سازش کا ایک مرکزی کردار قرار دے دیا ہے بلکہ سپریم کورٹ کو بھی اس تنازعے میں گھسیٹنے کی سازش کرتے ہوئے یہ پیشکش کر دی ہے کہ

وہ پریڈ گراؤنڈ کے جلسے میں لہرایا جانے والا خفیہ خط چیف جسٹس آف پاکستان کو دکھانے کے لئے تیار ہیں۔

ناقدین نے وزیراعظم کی اس تجویز پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک حکومت کا سربراہ ہونے کے باوجود وزیر اعظم پارلیمنٹ پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار نہیں اور اپوزیشن پر بیرونی سازش کا حصہ ہونے کا الزام لگاتے ہوئے اس تنازعے میں سپریم کورٹ کو فریق بنانے کی سازش کر رہے ہیں۔ آئینی اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کسی صورت اس تنازعے میں خود کو الجھا کر اپنی ساکھ مزید خراب نہیں کرنا چاہے گی۔
یاد رہے کہ 29 مارچ کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا ہے کہ کچھ لوگوں کو اعتراض ہے کہ وزیر اعظم نے ’دھمکی آمیز خط‘ پبلک کیوں نہیں کیا، لہذا اب وزیر اعظم یہ خط سپریم کورٹ میں پیش کرنے کو تیار ہیں۔

اسد عمر نے کہا کہ وزیر اعظم نے جلسے میں ایک مراسلے کا ذکر کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک میں بیرونی ہاتھ شامل ہیں۔ اسد عمر کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں خط کیوں نہیں دیا جارہا، کچھ راز قومی نوعیت کے ہوتے ہیں، لیکن وزیر اعظم نے مجھے کہا ہے کہ اگر کسی کوئی شک ہے تو ہم یہ خط سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو دکھانے کو تیار ہیں، کیونکہ ان پر سب کو اعتماد ہے۔ ان کا کہنا تھا مجھے اجازت نہیں کہ اس خط میں لکھے ہوئے الفاظ بتاسکوں، لیکن کلیدی باتیں دہرا دیتا ہوں، خصوصا وہ حصہ جو عدم اعتماد کی تحریک سے جڑا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس مراسلے کی تاریخ 7 مارچ ہے جو عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے سے قبل کی ہے، یہ بات اہم اس لیے ہے کہ اس مراسلے میں براہِ راست تحریک عدم اعتماد کا ذکر ہے۔ تاہم اسد عمر کو شاید یاد نہیں کہ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا اعلان ایک مہینہ پہلے کیا تھا اور اسے قومی اسمبلی میں آٹھ مارچ کو جمع کروایا گیا تھا۔ اسد عمر نے کہا کہ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس میں دو ٹوک الفاظ میں لکھا گیا ہے کہ اگر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہیں ہوتی اور عمران خان وزیر اعظم رہتے ہیں تو اس کے نتائج خطرناک ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ مراسلہ وزیر اعظم کے منصب اور تحریک عدم اعتماد سے براہِ راست جڑا ہوا ہے۔ انہوں نے کہ قانونی بندشوں کے سبب یہ مراسلہ صرف اعلیٰ ترین فوجی قیادت اور کابینہ کے کچھ اراکین کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے، اس لیے وزیر اعظم یہ خط سپریم کورٹ میں پیش کرنے کو تیار ہیں۔ لیکن یہاں یہ بھی یاد رہے کہ وزیراعظم نے جہاں بیرونی سازش کا ذکر کیا وہیں یہ بھی فرمایا تھا کہ اس سازش میں ملک کے اندر موجود طاقتیں بھی ملوث ہیں جو بھٹو کی پھانسی کی ذمہ دار بھی تھیں۔ ایسا کہتے ہوئے وزیر اعظم نے نام لیے بغیر فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب اشارہ کیا تھا کیونکہ نواز شریف تو بیرون ملک بیٹھے ہوئے ہیں۔

وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا کہ اس مراسلے میں براہِ راست پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ذکر ہے لہذا یہ بات واضح ہے کہ اس خط میں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک اور بیرونی ہاتھ آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کوئی شک نہیں ہے کہ اس سازش میں نواز شریف ملوث ہیں جو لندن میں بیٹھ کر ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان حالات کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم نے ضروری سمجھا کہ عوام کو اس سازش بارے آگاہ کیا جائے۔ اسد عمر نے کہا کہ ہمارا ماننا ہے کہ قومی اسمبلی میں موجود حکومتی اراکین کو یہ نہیں معلوم کہ تحریک عدم اعتماد کے پیچھے کون سے عناصر ہیں۔

تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم حکومت بچانے کی خاطر نہ صرف اپوزیشن پر بے بنیاد الزامات لگا رہے ہیں بلکہ یہ بھونڈا دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی سازش نواز شریف نے بیرونی طاقتوں کے ساتھ مل کر تیار کی ہے۔ آئینی اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان عمران خان کی جانب سے خط دکھانے کی پیشکش اس لئے قبول نہیں کر سکتے کہ وزیر اعظم بنیادی طور پر اپوزیشن پر الزام عائد کر رہے ہیں اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ایک سیاسی تنازع کا حصہ بن کر اپنی ساکھ مزید خراب نہیں کرے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ویسے بھی سپریم کورٹ سے آئینی اور قانونی تنازعات کے حل کے لیے رجوع کیا جاتا ہے، نہ کہ سیاسی الزامات کی جانچ کے لیے۔

یاد رہے کہ پریڈ گراؤنڈ میں خطاب کے دوران عمران خان نے خطاب کرتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ انہیں بھی ذوالفقار بھٹو کی طرح ایک بین الاقوامی سازش کے تحت اقتدار سے نکالنے کی کوشش کی جا رہی یے۔ انہوں نے بھی بھٹو کی طرح ایک خط لہراتے ہوئے کہا کہ اس میں انہیں کھلی دھمکی دی گئی ہے۔ یاد رہے کہ مارچ 1977ء کے الیکشن کے بعد جب پاکستان قومی اتحاد کی نظامِ مصطفیٰ کی تحریک اپنے عروج پر تھی وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پنڈی کے بھرے بازار میں ایک امریکی اہلکار کا خط لہراتے ہوئے باقاعدہ اس کا نام لیتے ہوئے کہا تھا امریکا میری حکومت کو ختم کرنے اور مجھے مارنے کی سازش کررہا ہے، اور پھر قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی اسی بات کو دہرایا تھا۔ بھٹو نے جس امریکی اہلکار کا حوالہ دیا تھا وہ اسلام آباد کے سفارتخانے میں ایک اہم عہدے پر فائز تھا اور دہلی میں اپنے ایک ہم منصب سفارتکار سے خوشی سے پھولے نہ سماتے ہوئے چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا Party is over ،party is over۔

خاتون اول کو ٹارگٹ کرنے کیلئے فرح بی بی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے

دوسری جانب 27 مارچ کو پریڈ گراؤنڈ میں اپنے جلسے کے دوران وزیرِاعظم عمران خان نے بغیر کسی لگی لپٹی بھٹو صاحب کی جرأت و عظمت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج کم و بیش وہی حالات ہیں۔ عمران خان نے بھٹو صاحب کی طرح خط بھی لہرایا جسے کروڑوں لوگوں نے دیکھا۔ کہکن وزیراعظم کے دعوے اور اس خط کی ساکھ پر سوالات اٹھائے جا رہے تھے جس کے بعد وزیراعظم نے اسے چیف جسٹس آف پاکستان کو دکھانے کی متنازع پیشکش کر دی ہے۔

Will Supreme Court embroiled in dubious letter controversy? ] video in Urdu

Back to top button