حکومت مولانا کے بغیر بھی ترامیم پاس کروانے کی پوزیشن میں آ گئی
ملک بھر میں آئینی عدالتوں کے قیام سمیت عدالتی اصلاحات سے متعلق 26ویں آئینی ترامیم پر اتفاق رائے کی کوششیں آخری مراحل میں داخل ہونے کے بعد حکومت کی طرف سے بار بار اس مؤقف کا اعادہ کیا جا رہا ہے کہ اتحادی حکومت کے پاس پارلیمنٹ سے آئینی ترامیم منظور کروانے کا مکمل بندوبست موجود ہے اور اتحادی حکومت جے یوآئی سمیت کسی بھی اپوزیشن جماعت کے بغیر آئینی ترمیمی پیکج پارلیمنٹ سے منظور کروانے کی پوزیشن میں ہے۔اس حوالے سے تمام انتظامات کئے جا چکے ہیں حکومت ہر صورت25 اکتوبر سے قبل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے آئینی ترمیم منظور کروا لے گی۔ تاہم یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت پارلیمنٹ یعنی قومی اسمبی و سینیٹ میں نمبرز گیم کیا ہے اور حکومت آئینی ترمیم کی منظوری کیلئے دو تہائی اکثریت کیسے اکٹھی کرے گی؟
مبصرین کے مطابقآئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو قومی اسمبلی کے 336 کے ایوان میں 224 اور سینیٹ کے 96 کے ایوان میں 64 ارکان کی حمایت درکار ہے، جبکہ اس وقت قومی اسمبلی میں 214 اور سینیٹ میں 54 ارکان کی حمایت حاصل ہے، قومی اسمبلی میں مزید 10 اور سینیٹ میں 10 ارکان کی حمایت کی ضرورت ہے۔
الیکشن کمیشن اگر سپیکر قومی اسمبلی کے مطالبے کے مطابق ترمیمی الیکشن ایکٹ کی روشنی میں مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ جاری کر دیتا ہے اور پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہیں دی جاتیں تو قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کو جمیعت علمائے اسلام کی حمایت کے بغیر بھی دو تہائی اکثریت حاصل ہو جائے گی اور اتحادی حکومتی سیاسی جماعتوں کی کل نشستوں کی تعداد 230 ہو جائے گی، جبکہ 336 کے ایوان میں دو تہائی اکثریت کے لیے 224 ارکان کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے۔
اگر پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں دیگر پارٹیوں میں تقسیم نہیں کی جاتیں تو اس صورت میں جمعیت علمائے اسلام کی 8 نشستوں اور 2 پی ٹی آئی یا دیگر ارکان کی حمایت سے حکومت مطلوبہ نمبرز حاصل کر لے گی اور آئینی ترمیم منظور کرا لی جائے گی۔
آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو سینیٹ میں بھی دو تہائی اکثریت یعنی 64 ارکان کی حمایت کی ضرورت ہے۔ اس وقت حکمران اتحاد کو پیپلز پارٹی کے 24، مسلم لیگ ن کے 19، بلوچستان عوامی پارٹی کے 4، ایم کیو ایم کے 3 اور 4 آزاد ارکان سمیت مجموعی طور پر 54 ارکان کی حمایت حاصل ہے جبکہ دو تہائی اکثریت پوری کرنے کے لیے ان کو مزید 10 ارکان کی حمایت کی ضرورت ہوگی۔
اس وقت سینیٹ میں پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد 17، جمیعت علما اسلام کے 5، اے این پی کے 3، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی، سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت المسلمین، مسلم لیگ ق کا ایک ایک جبکہ ایک آزاد رکن موجود ہے۔ ان تمام ارکان کی تعداد 31 ہے۔اگر حکومت سینیٹ میں جمعیت علمائے اسلام کے 5 ارکان سینیٹ کی حمایت حاصل بھی کر لیتی ہے تو اسے آئینی ترمیم کے لیے مزید 5 ارکان کی ضرورت ہو گی، اور 63اے کے فیصلے کے بعد اپوزیشن کے کوئی سے 5 ارکان کے ووٹوں سے سینیٹ میں بھی حکومت دو تہائی اکثریت حاصل کر سکتی ہے۔
خیال رہے کہ ملک بھر میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد کسی بھی جماعت کو قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل نہیں ہوئی۔ عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ 93 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے جن کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔ پاکستان مسلم لیگ ن 75 جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی 54 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ متحدہ قومی موومنٹ کو 17، آزاد اراکین کو 9، جمعیت علما اسلام کو 5 اور مسلم لیگ ق کو 3 نشستیں حاصل ہوئیں۔ جبکہ مسلم لیگ ضیا، مجلس وحدت المسلمین، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو ایک، ایک نشست پر کامیابی حاصل ہوئی۔
قومی اسمبلی کی پارٹی پوزیشن لسٹ کے مطابق حکمراں اتحاد میں ن لیگ کے پاس اس وقت 87 جنرل نشستیں، خواتین کی 20 اور 4 اقلیتوں کی مخصوص نشستوں سمیت مجموعی طور پر 111 نشستیں ہیں۔
دیگر اتحادیوں میں پیپلز پارٹی کی قومی اسمبلی میں 54 جنرل، 13 خواتین اور 2 اقلیتی نشستوں کے ساتھ کل تعداد 69 ہے، ایم کیو ایم 5 مخصوص نشستوں کے ساتھ 22، مسلم لیگ ق کی 1 مخصوص نشست کے ساتھ 5 نشستیں، استحکام پاکستان پارٹی کی ایک مخصوص نشست کے ساتھ 4 نشستیں جبکہ مسلم لیگ ضیا، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کی قومی اسمبلی میں ایک ایک نشست ہے۔
عام انتخابات کے بعد الیکشن ایکٹ کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کی 60 خواتین اور 10 اقلیتوں کی مخصوص نشستوں میں سے بالترتیب 40 خواتین جبکہ 7 اقلیتی نشستیں پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کو الاٹ کردی تھیں کیونکہ اس وقت تک سنی اتحاد کونسل کے کوٹے میں آنے والی 23 نشستوں کا فیصلہ نہیں ہوسکا تھا۔ بعدازاں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا حکم دے دیا تھا۔ تاہم حکومت نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے سے روک دیا ہے اور مخصوص نشستوں کی سابقہ تقسیم کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔ الیکشن کمیشن اب اگر پی ٹی آئی کے کوٹے کی 23 مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو دے دیتا ہے تو 14 نشستیں ن لیگ، 6 نشستیں پیپلز پارٹی جبکہ 3 نشستیں جمیعت علما اسلام کو دی جائیں گی۔ اس طرح اتحادی حکومت کسی اور اپوزیشن سیاسی جماعت کے بغیر قومی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔