عمران خان حکومت دشمنی میں پاکستان دشمنی پر کیوں اتر آیا؟

عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے بالآخر پاکستان کو قرض کی اگلی قسط کی فراہمی سے صرف دو روز پہلے عمران خان کے ایما پر خیبر پختونخوا حکومت نے گند ڈالتے ہوئے آئی ایم ایف کی پیشگی شرائط پر عمل کرنے سے انکار کر دیا ہے جس کے نتیجے میں قرض فراہمی ایک مرتبہ پھر خطرے میں پڑ گئی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ عمران کے نزدیک پاکستان سے ذیادہ اقتدار اہم ہے اور اسی لیے وہ چاہتا یے کہ اگر میں اقتدار میں نہیں تو پاکستان چاہے بھاڑ میں چلا جائے۔ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کو لکھے گئے خط میں پہلے سے طے شدہ شرائط سے پھرنے کا عندیہ دیا گیا ہے جسکا صاف مطلب یہ ہے کہ عمران نے پاکستان کو آئی ایم ایف کی جانب سے ملنے والے قرض کی اگلی قسط کا رکوانے کا منصوبہ بنایا ہے حالانکہ اس سے حکومت کا نہیں بلکہ پاکستان اور اس کے عوام کا نقصان ہوگا۔
دوسری جانب خیبر پختون خوا میں سرکاری ذرائع کے مطابق تقریباً 100 ارب کے بقایا جات کی عدم ادائیگی کے باعث خیبرپختونخوا حکومت نے سرپلس بجٹ کے لیے آئی ایم ایف کے قرض کی پیشگی شرط پر عمل درآمد کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق صوبائی حکومت کے اس قدم سے آئی ایم ایف سے قرضے فراہمی کا عمل معطل بھی ہو سکتا ہے۔
یاد رہے کہ آئی ایم ایف سے قرض کی یہ قسط حاصل کرنے کے لیے موجودہ حکومت نے ہر طرح کے پاپڑ بیلے ہیں اور پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوامی نفرت کا سامنا بھی کیا ہے۔ خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو ایک خط ارسال کیا ہے جس کی ایک کاپی آئی ایم ایف کو بھی ارسال کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔تیمور جھگڑا نے اس خط میں وفاقی حکومت سے جھگڑا ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ 6 جولائی 2023 کے اجلاس میں وفاقی حکومت نے ہمارے بڑے مالی مسائل کو حل کرنے کا عہد کیا تھا جس پر وعدے کے مطابق وزیر اعلیٰ محمود خان نے آئی ایم ایف کے ساتھ ایم او یو پر دستخط کرنے کی اجازت دی اور صوبائی حکومت نے 24 گھنٹوں کے اندر معاہدے پر دستخط کردئیے تھے۔
لیکن جھگڑا نے لکھا کہ افسوس کی بات ہے کہ وفاقی حکومت نے اپنے وعدوں پر عمل درآمد نہیں کیا۔ کے پی حکومت نے آئی ایم ایف سے ایم او یو پر دستخط کا فیصلہ عظیم تر قومی مفاد میں کیا تھا تاہم اس کے برعکس دو ماہ کے درمیانی عرصے میں ہمیں بار بار کی درخواست کے باوجود ایک بار بھی وزیر یا سیکرٹری سے ملاقات کا وقت نہیں مل سکا۔ تیمور جھگڑا نے کہا کہ سب سے اہم معاملہ یہ ہے کہ سابق فاٹا کے لیے بجٹ میں رقم مختص کرنے کامعاملہ نئے این ایف سی ایوارڈ کی عدم موجودگی میں‘وفاقی حکومت کی صوابدید ہے۔لیکن موجودہ بجٹ میں تو ملازمین کی ماہانہ تنخواہ کے اخراجات کو بھی پورا نہیں کیا جاسکتا۔ انھوں نے کہا کہ سابق فاٹا کے رہائشیوں کے لیے صحت کارڈ پروگرام کی منتقلی کے لیے مالی اعانت فراہم کرنے کامعاملہ بھی حل طلب ہے جس میں وفاقی حکومت نے یکطرفہ طور پر سابق فاٹا کے 60 لاکھ رہائشیوں کو ہیلتھ انشورنس سے محروم کردیا۔ لہٰذا سابق فاٹا سے نقل مکانی کرنےوالوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مناسب بجٹ کو یقینی بنایا جائے ۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ 2016 میں وفاقی حکومت اور خیبرپختونخوا حکومت کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی بنیاد پر ماہانہ پن بجلی کے بقایاجات اداء کرنے کا عہد کیا جائے۔ جھگڑا نے لکھا کہ ان مسائل کو حل نہ کرنے کا مجموعی اثر دراصل خیبر پختونخواہ کے بجٹ میں 100 ارب روپے کی کمی سے ہوگا جو وفاق کے ذمے بنتے ہیں۔ اب بارشوں اور سیلاب نے صورت حال کو مشکل تر بنا دیا ہے اور ریسکیو، ریلیف، اور بحالی کے حوالے سے لاگت اربوں روپے تک پہنچنے کا امکان ہے۔ وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے کہا کہ ان حالات میں صوبے کے مسائل کے حل کے بغیر، خیبر پختونخوا کے لیے بجٹ میں سرپلس چھوڑنا ناممکن ہوگا۔
دوسری جانب وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں وفاقی حکومت خیبر پختونخواہ کے وزیر خزانہ کی جانب سے پیش کیے گئے گئے مطالبات تسلیم کرنے کو تیار ہے لیکن آئی ایم ایف کے ساتھ کیا گیا پیشگی معاہدہ کسی صورت خراب نہیں کیا جانا چاہیے ورنہ قرض کی اگلی قسط معطل ہوئی تو اس کا نقصان پورا پاکستان اٹھائے گا جس کی ذمہ داری صرف اور صرف عمران خان پر عائد ہو گی۔

Back to top button