مریم نواز کے ’’فوری انصاف‘‘ کا فوری نتیجہ

تحریر : حماد غزنوی

بشکریہ: روزنامہ جنگ

اگر سوکھے ہوئے راوی کے کنارے کوئی کتا پیاس سے مر جائے تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ صوبے کا وزیرِ اعلیٰ، لاہور کا ناظم، علاقے کے منتخب نمائندے یا محکمہ انسدادِ بے رحمی حیوانات ؟ پیاسے کتّے کی مثال صرف اسلئے دی گئی ہے کہ اسلامی تاریخ میں یہ فقرہ معروف ہے اور اسکا حوالہ سربراہِ حکومت کی کڑی ذمہ داریوں پر دال سمجھا جاتا ہے۔ آج کی دنیا میں اس جملے کا ایک ہی معنیٰ ہے، یعنی مقننہ جان کی حرمت کے ضمن میں موثر قانون سازی کرے گی، انتظامیہ کا سربراہ وہ قانون یک سُوئی سے نافذ کرے گا جس میں کوئی جان ناحق ضائع نہ ہو گی، وہ مستعد عمال مقرر کرے گا جو صبح شام جاں فشانی سے اپنے فرائض سرانجام دیں گے، اور عدلیہ غیر ذمہ دار منصب داروں کو ان کی فرض ناشناسی کی سزا دے گی۔ لکھنے میں تو یہ بات بہت سیدھی اور سادی لگ رہی ہے، مگر ہے نہیں۔ قوموں نے خون تُھوک کر یہ نظام بنائے ہیں، اس میں دہائیاں صرف ہوتی ہیں، پوری قوم ایک متفقہ منزل طے کرتی ہے اورتن دہی سے ایک ایک قدم پھونک پھونک کر اُٹھاتی ہوئی جادہ طے کرتی چلی جاتی ہے۔

’راتوں رات‘ کوئی ویڈیو کلِپ تو وائرل ہو سکتا ہے مگر مستحکم اجتماعی نظامِ فلاحِ عامہ وجود میں نہیں آ سکتا، ’راتوں رات‘ پولیس کا، تعلیم کا یا صحت کا نظام پٹڑی پر نہیں چڑھ سکتا، اس کی کوئی مثال دنیا کے کسی خطے، تاریخ کے کسی دور سے فراہم نہیں کی جا سکتی۔ پچھلے ہفتے پنجاب کی وزیرِ اعلیٰ مریم نواز میو ہسپتال کے طے شدہ دورے پر گئیں تو مریضوں نے جائز شکایات کے انبار لگا دیے، وزیرِ اعلیٰ ہسپتال انتظامیہ پر انتہائی برہم ہو گئیں، اس عالمِ برہمی میں انہوں نے ہسپتال انتظامیہ کو موقعے پر کیا ’’ٹیکا‘‘ لگایا اُس کا احوال ایک وائرل ویڈیو کلِپ میں دیکھا جا سکتا ہے جو وزیرِ اعلیٰ کی ٹیم کی اہم رکن حنا پرویز بٹ صاحبہ نے سوشل میڈیا پر فخریہ جاری کیا تھا۔ چیف منسٹر صاحبہ خفگی سے ہسپتال کے میڈیکل سپریٹنڈنٹ جناب ڈاکٹر فیصل مسعود صاحب سے کہہ رہی ہیں کہ’’آپ کو تو کچھ پتا نہیں….آپ کو کس نے رکھا ہوا ہے یہاں….!

The guy [MS] needs to be fired

…شکر کرو کہ میں آپ کو گرفتار نہیں کروا رہی۔‘‘۔ وزیرِ اعلیٰ کے اس ردِ عمل کی کیا تشریح کی جائے؟ یہ بے یارومددگار عوام کی پریشانی پر ایک دردِ دل رکھنے والے منتظمِ اعلیٰ کی فرسٹریشن کا اظہار ہے؟ دوسرے ہسپتالوں کے منتظمین کو ایک سخت پیغام ہے یا ان کے ناقدین کے بہ قول فقط ایک میڈیا gimmick ہے؟ ہم ماضی میں بھی کئی ایسی معطلیاں دیکھ چکے ہیں، مگر ان کے ثمرات اب تک ہماری نظر سے اوجھل ہیں۔ موقعے پر کسی ’افسر‘ کو معطل کرنا ایک وزیرِ اعلیٰ کیلئے غالباً سہل ترین کام ہے جو عثمان بزدار بھی کر لیتے تھے، یہ غصے کا اظہار تو سمجھا جا سکتا ہے، مسائل کی سنجیدگی سے بیخ کنی کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ جہاں تک یہ سوال ہے کہ ’’آپ کو کس نے رکھا ہوا ہے یہاں‘‘ تو اس کا سیدھا جواب تو یہ ہے کہ ’’میڈم چیف منسٹر صاحبہ، مجھے یہاں آپ نے رکھا ہوا ہے۔‘‘ یاد رہے کہ یہ میو ہسپتال کے ایم ایس کی بات ہو رہی ہے، اور میو ہسپتال جلال پور پیروالا میں واقع نہیں ہے، یہ لاہور کابلکہ پنجاب کا سب سے بڑا اور سب سے پرانا سرکاری ہسپتال ہے، اور اس کے ایم ایس کی تعیناتی وزیرِ اعلیٰ کے علم میں ہونا چاہیے، اور فرض کیا کہ مریم نواز کو نہیں معلوم کہ ان کی ناک کے نیچے ان سے چُھپ کر ان کے آبائی شہراور ان کے سیاست کے گڑھ لاہور کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال کا ایم ایس کون بنا دیا گیا ہے تو پھر ان کے لاہوری وزیرِ صحت کو تو پتا ہونا چاہیے کہ ایم ایس کو کس نے رکھا ہوا ہے، اور اگر انہیں بھی نہیں معلوم تو کیا سیکرٹری صحت کو بھی نہیں معلوم؟ مطلب یہ کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ ایم ایس کو کس نے رکھا ہوا ہے، ’’جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔‘‘

اب ذرا مختصر تعارف معطل شدہ ایم ایس ڈاکٹر فیصل مسعود صاحب کا بھی ہو جائے، وہ کنگ ایڈورڈ ہسپتال کے آرتھوپیڈک ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں، اور اپنے شعبے کا ایک محترم نام ہیں جن پر وزیرِ اعلیٰ صاحبہ نے یہ مہربانی فرمائی کہ ان کو گرفتار نہیں کروایا۔ (ثاقب نثار صاحب کا شرفاء کی طرف اہانت آمیز رویہ یاد آ گیا)۔ میو ہسپتال کے پاس مریضوں کو فراہم کرنے کیلئے مفت دوائیاں نہیں ہیں، ہسپتال کے پاس فنڈ نہیں ہیں، ہسپتال کے ذمے ساڑھے تین ارب کے واجبات زیرِ التواء ہیں، ادویہ فراہم کرنے والی کمپنیاں مزید ادھار دینے پر تیار نہیں، وزیر صاحب بھی جانتے ہیں اور سیکرٹری صاحب کو بھی اچھی طرح یہ ساری صورتِ حال معلوم ہے، اور معطل ایم ایس کو کر دیا جاتا ہے، اور ایم ایس بھی وہ جو اس حالتِ زار پر پندرہ دن پہلے ہی اپنا استعفیٰ لکھ کر حکومت کو بھیج چکا ہے۔ اور اس معطلی کے بعد حکومت ادویہ کے لیے چونتیس کروڑ روپے جاری کر کے مزید تصدیق کرتی ہے کہ اصل مسئلہ فنڈز کی عدم فراہمی کا ہی تھا۔

حکومتی بندوبست کے "صدر” کا حکومت پر یکطرفہ فیصلوں کا الزام

بہرحال وزیرِ اعلیٰ کے اس ’فوری انصاف‘ کا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ دو دن بعد ہی میو ہسپتال میں انجکشن کے غلط استعمال سے دو مریض ہلاک ہو گئے۔نظام کی درستی معطلیوں سے ہو سکتی تو کب کی ہو چکی ہوتی۔ دنیا کے جن عالی شان ہسپتالوں میں حکم ران طبقہ علاج کروانے جاتا ہے وہاں کبھی کوئی ایم ایس معطل نہیں کیا گیا، وہ ہسپتال کوئی پروفیسر یا بیوروکریٹ نہیں چلاتا، ہیلتھ مینجمنٹ کے ماہرین چلاتے ہیں۔ شارٹ کٹ مت ڈھونڈیں، نظام بدلیں…اوکھے پینڈے، لمیاں نے راہواں عشق دیاں۔

Check Also
Close
Back to top button