احتجاج منسوخی کے بعد پی ٹی آئی ورکرز کے حوصلے مزید پست
تحریک انصاف کی جانب سے اسلام اباد میں احتجاج کی کال واپس لینے کے بعد پارٹی ورکرز کے حوصلے اور بھی پست ہو گئے ہیں اور اب یہ کہا جا رہا ہے کہ مستقبل قریب میں پی ٹی آئی احتجاج کی کوئی بڑی کال دینے کی پوزیشن میں نہیں رہی۔ یاد رہے کہ چند ہفتے پہلے ہی لاہور میں جلسے کی تاریخ تبدیل کرنے پر بھی پارٹی ورکرز بد دل ہوئے تھے جس کے بعد عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ دوبارہ کبھی فوجی اسٹیبلشمنٹ پر نہ تو بھروسہ کریں گے اور نہ ہی اسکے ساتھ مذاکرات کریں گے۔ تاہم اب ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر اسلام آباد میں احتجاج کی کال منسوخ ہونے کے بعد پارٹی ورکرز اپنی قیادت پر اعتماد کھونا شروع ہو گئے ہیں۔
خیال ریے کہ تحریک انصاف نے اڈیالہ جیل میں قید عمران خان تک رسائی دینے کے عوض اسلام آباد کے ڈی چوک میں 15 اکتوبر کو احتجاج کی کال واپس لے لی تھی۔ ایک ویڈیو پیغام میں پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان کا کہنا تھا کہ وزیر داخلہ محسن نقوی نے انھیں یقین دہانی کرائی ہے کہ 15 اکتوبر کو پمز ہسپتال کے ڈاکٹر اڈیالہ جیل جا کر عمران خان کا معائنہ کریں گے۔ انکا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی قیادت اور سیاسی کمیٹی نے ’متفقہ طور پر اس بات کو قبول کیا تھا۔‘ انھوں نے کہا کہ اسلام آباد میں ایس سی او اجلاس ہونے والا ہے اور ’ہمارے اتحادیوں نے احتجاج کی کال موخر کرنے کی درخواست کی تھی۔‘
بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ پی ٹی ائی کی قیادت عمران خان کی صحت کے حوالے سے پریشان تھی اور اسی لیے حکومت نے ڈاکٹرز کے معائنے کے بعد انکی صحت بارے رپورٹ شیئر کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ انکا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کو بانی پی ٹی آئی کی صحت کے حوالے سے خدشات تھے جنکی بنا پر 15 اکتوبر کو احتجاج کی کال دی گئی تھی۔
یاد رہے کہ احتجاج کی اس کال کے بعد تحریک انصاف شدید تنقید کی زد میں اگئی تھی اور اسے پاکستان مخالف ایجنڈا اپنانے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ گیا تھا۔ تحریک انصاف کے کئی مرکزی رہنما بھی 15 اکتوبر کو کانفرنس کے موقع پر احتجاج نہ کرنے کے حق میں تھے اور مولانا فضل الرحمن نے بھی یہ کال منسوخ کرنے کا مطالبہ کر دیا تھا۔ ایسے میں بیرسٹر گوہر نے وزیر داخلہ محسن نقوی سے رابطہ کر کے فیس سیونگ مانگی جس کے بعد یہ طے ہوا کہ ڈاکٹرز جیل جا کر عمران خان کا معائنہ کریں گے جس کے عوض تحریک انصاف احتجاج کال منسوخ کر دے گی۔
تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 14 اکتوبر کی رات تک نہ تو حکومت نے پی ٹی ائی کو کسی قسم کی کوئی یقین دہانی کروائی تھی اور نہ ہی تحریک انصاف کی جانب سے اسلام اباد میں احتجاج کے حوالے سے کوئی تیاری کی گئی تھی۔ عجیب بات یہ ہے کہ وزیر اعلی خیبر پختون علی مین گنڈا پور بھی احتجاج کی کال کے بعد مسلسل خاموش رہے حالانکہ وہ ہر مرتبہ پشاور سے ایک بڑا جلوس لے کر اسلام اباد پر دھاو بولا کا اعلان کیا کرتے تھے۔ دوسری جانب حکومت نے شر پسندوں سے نمٹنے کے لیے اسلام اباد میں فوج طلب کر لی تھی اور بین الاقوامی کانفرنس کے شرکا کی سکیورٹی بھی فوج کے ذمے لگا دی گئی تھی۔
وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر دفاع خواجہ اصف نے واضح الفاظ میں بتا دیا تھا کہ اگر پی ٹی آئی نے 15 اکتوبر کو اسلام اباد میں احتجاج کی کوشش کی تو اس سے نمٹنے کے لیے اخری حد تک جایا جائے گا۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنما زلفی بخاری کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی کے 15 اکتوبر کے احتجاج کا مقصد اسلام آباد میں ایس سی او کانفرنس کو نقصان پہنچانا نہیں تھا بلکہ یہ جاننا تھا کہ آیا عمران خان جیل میں خیریت سے ہیں۔ ایک آڈیو پیغام میں انکا کہنا تھا کہ ’دوست ممالک کے سفارتخانوں نے پارٹی قیادت سے احتجاج موخر کرنے کی درخواست کی تھی۔ انکا کہنا تھا کہ ہم نے ملک اور عمران خان کے مفاد میں احتجاج موخر کیا ہے۔
اس سے قبل پی ٹی آئی نے الزام عائد کیا تھا کہ حکومت ’عمران خان کی جان کو خطرے میں ڈال کر‘ اڈیالہ جیل میں ان سے ملاقات کی اجازت نہیں دے رہی۔ خیال رہے کہ اکتوبر کے اوائل میں حکومت نے سکیورٹی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے 18 اکتوبر تک اڈیالہ جیل میں بند عمران سمیت تمام قیدیوں سے ہر قسم کی ملاقات پر پابندی عائد کی تھی۔ تحریکِ انصاف کا مطالبہ رہا ہے کہ عمران کی اُن کے وکلا، ڈاکٹرز، اہلِخانہ اور پارٹی قائدین تک رسائی بحال کی جائے۔