پولیس کا ہر شہر میں یوتھیوں کی دھلائی اور ٹھکائی کا منصوبہ تیار

خیبرپختونخوا کے علاہ وفاقی و صوبائی حکومتوں نے پی ٹی آئی کے احتجاجی مارچ کو روکنے کیلئے جارحانہ اقدامات پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے یوتھیوں کی دھلائی اور ٹھکائی کا مکمل بندوبست کرنے کے ساتھ ساتھ جہاں موٹرویز، ہائی ویز اور بس سٹینڈز کو بند کر دیا گیا ہے وہیں اسلام آباد اور لاہور سمیت بڑے شہروں کے داخلی و خارجی راستوں پر بھی کنٹینرز لگا دئیے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق حکومت یوتھیوں کو اکٹھا ہونے سے روکنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے اس حکمت عملی کے تحت ہر شہر کے یوتھیوں کی اسی شہر کے اندر ہی دھلائی اور ٹھکائی کی جائے گی اور شرپسند عمرانڈوز کو سڑکوں پر آنے نہیں دیا جائے گا تاکہ پی ٹی آئی کارکنان اکٹھے ہو کر سانحہ 9 مئی کی طرح کوئی اور سازش رچانے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ ذرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے سیکیورٹی اداروں کو واضح ہدایات دی گئی ہیں نام نہاد احتجاج کے نام پر ریاستی املاک پر دھاوا بولنے کے کوشش کرنے والے یوتھیوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے اور ان کو نشان عبرت بنایا جائے تاکہ آئندہ کسی کو ریاستی املاک پر حملہ کرنے کی جرات نہ ہو۔

روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت نے پی ٹی آئی کے چوبیس نومبر کے مارچ کو ناکام بنانے کے لئے یہ حکمت عملی طے کی ہے کہ انتشاری ٹولے کو پشاور تک محدود کردیا جائے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہوا تو پھر احتجاجی مظاہرین کو زیادہ سے زیادہ صوابی اور اس سے آگے اٹک تک ہی پہنچنے دیا جائے۔ تاہم خیبرپختونخوا سے آنے والے احتجاجی مظاہرین کو اٹک پل۔کراس نہیں کرنے دیا جائے گا۔ تاہم اب دیکھنا ہے کہ حکومت کی یہ حکمت عملی کس قدر کامیاب ہوپاتی ہے۔ تاہم اسلام آباد میں بھی پی ٹی آئی مظاہرین سے نمٹنے کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں، جہاں اسلام آباد کھ داخلی و خارجی راستے کنٹینرز لگا کر بند کر دئیے گئے ہیں وہیں اسلام آباد آنے والی ٹریفک کو بھی مختلف راستوں پر روک دیا گیا ہے جبکہ شہر کے اندر پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری تعینات کی جاچکی ہے، دوسری جانب آنسو گیس کے گولے اور ربڑ کی گولیوں کا ذخیرہ بھی کیا جاچکا ہے۔ جبکہ دیگر صوبوں اور آزاد کشمیر سے قیدیوں کی درجنوں وینز بھی منگوالی گئی ہیں۔

باخبر ذرائع نے بتایا کہ وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا کو بھیجا جانے والا مراسلہ اسی سلسلے کی کڑی ہے کہ کسی طرح پی ٹی آئی کے مظاہرین کو صوبے تک محدود رکھنے کی کوشش کی جائے۔ اور اگر اس میں ناکامی ہوتی ہے تو اٹک پر روک لیا جائے۔

واضح رہے کہ اس مراسلے میں چیف سیکریٹری کو کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے احتجاج میں خیبرپختونخوا کی سرکاری مشینری کا استعمال روکا جائے اور یہ یقینی بنایا جائے کہ احتجاج میں سرکاری افسران ، عملہ ، نفری اور اخراجات کو استعمال نہ کیا جاسکے۔ اس سوال پر کہ چیف سیکریٹری ان ہدایات پر عمل کرنے کی پوزیشن میں ہیں یا نہیں؟ذرائع کا کہنا تھا کہ چیف سیکریٹری وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے ، جبکہ کسی بھی صوبے کا وزیراعلیٰ اپنے احکامات پر چیف سیکریٹری کے ذریعے ہی عمل کرواسکتا ہے۔ قانون کے مطابق وزیراعلیٰ براہ راست کسی سیکریٹری یا ریسکیو ون ون ٹو ٹو کی سروس کو ڈائریکٹ یہ ہدایت نہیں دے سکتا کہ وہ احتجاج کے لئے اپنی گاڑیاں نکالیں۔ لہٰذا چوبیس نومبر کے مارچ کے لئے سرکاری وسائل کا استعمال چیف سیکریٹری کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا اور سرکاری مشینری چیف سیکریٹری کے احکامات کو نطر انداز کرتی ہے اور وزیراعلیٰ کی براہ راست ہدایات پر پہلے کی طرح احتجاج کا حصہ بن جاتی ہے تو پھر متعلقہ بیوروکریٹس کے خلاف چیف سیکریٹری اور وفاق قانونی کارروائی کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔

ذرائع کے مطابق چیف سیکریٹری کی ہدایات پر عمل نہ کرنے والے پی ایم ایس گروپ کے افسران کے خلاف وہ خود کارروائی کرسکتے ہیں جبکہ ڈی ایم جی افسران کے خلاف وفاقی حکومت ایکشن لے کر انہیں او ایس ڈی بناسکتی ہے۔ ایک سوال پر ذرائع کا کہنا تھا کہ جو افسران پیسے کے عوض اپنی سیٹ پر بیٹھے ہیں، وہ پس پردہ وزیراعلیٰ گنڈا پور کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے ۔ لیکن وہ افسران جو رشوت یا پیسہ نہ دینے کے سبب صوبے میں اچھے عہدوں سے محروم ہیں اور اس پر گنڈاپور سے ناراض ہیں، وہ یقیناً وزیراعلیٰ کی خواہشات کے برعکس چیف سیکریٹری کی ہدایات پر عمل کرنے کو ترجیح دیں گے۔

ذرائع نے بتایا کہ ایسے افسران خوش ہیں کہ انہیں احتجاج میں شریک نہ ہونے کا جواز مل گیا ہے۔ وفاق کی جانب سے چیف سیکریٹری کو بھیجے جانے والے مراسلے کے حوالے سے خاص طور پر ریسکیو ون ون ٹو ٹو والے بہت زیادہ خوش ہیں کہ ہماری جان چھٹ گئی۔

یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے پچھلے احتجاج میں بھی خیبرپختونخوا کی ریسکیو ون ون ٹو ٹو کی گاڑیاں اور عملے کو استعمال کیا گیا تھا۔ ان میں سے بہت سے گاڑیاں حکومت نے ضبط بھی کرلی تھیں اور عملے کو گرفتار کیا گیا تھا، تاہم بعد میں گاڑیاں چھوڑدی گئیں اور عملے کے ارکان کو بھی رہا کردیا گیا ۔ چوبیس نومبر کے احتجاج میں بھی پی ٹی آئی نے اسلام آباد کی طرف ریسکیو ون ون ٹو ٹو کی گاڑیاں لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ چیف سیکریٹری کے خلاف وزیراعلیٰ کوئی کارروائی کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ یہ اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہے۔ ذرائع کے بقول ویسے بھی خیبرپختونخوا کے موجودہ چیف سیکریٹری کو وزیراعظم شہباز شریف کے قریب سمجھا جاتا ہے۔

بشری کی جانب سے بریلوی کارڈ کھیلنے کی کوشش کیسے بیک فائر ہوئی ؟

تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ احتجاج کے حوالے سے بڑے بڑے دعووں کے دوران پی ٹی آئی مذاکرات کے نام پر ڈیل اور ڈھیل کیلئے بھی بہت ہاتھ پاﺅں مار رہی ہے لیکن یہ مشق بھی اس لئے غیر موثر ہے کہ مقتدر حلقے اس بات چیت سے لاتعلق ہیں اور حکومت بھی پی ٹی آئی کا کوئی مطالبہ ماننے کو تیار نہیں کیونکہ احتجاج ختم کرنے سے متعلق عمران خان نے جو مطالبات رکھے ہیں، وہ قابل عمل نہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ عدالتوں میں چلنے والے مقدمات کو نظر انداز کرکے حکومت، بانی پی ٹی آئی اور دیگر اسیروں کو رہا کردے۔ نہ چھبیسویں ترمیم واپس ہوسکتی ہے اور نہ ہی انتخابات کے نتائج کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

ذرائع کے مطابق ایسی صورتحال میں اگر احتجاج ختم کرنے سے متعلق کوئی ڈیل پایہ تکمیل کو پہنچتی بھی ہے تو یہ سمجھوتہ پی ٹی آئی فیس سیونگ کے لئے کرے گی، جس میں اس کا کوئی مطالبہ تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ پی ٹی آئی کو خوف ہے کہ چوبیس نومبر کا مارچ بھی پچھلے احتجاجوں کی طرح ناکام ہوگا، جسے اس نے ’’فائنل کال‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔ لہٰذا اس وقت پی ٹی آئی فیس سیونگ کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔

Back to top button