سٹیٹ بینک کو خود مختار بنایا گیا ہے یا IMF کا غلام؟
اپوزیشن کے شدید احتجاج کے باوجود قومی اسمبلی نے اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے مطالبے پر خود مختار بنانے کے لیے قانونی ترمیم کی منظوری تو دیدی لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد سٹیٹ بینک کو حکومت پاکستان کے کنٹرول سے نکال کر آئی ایم ایف کے کنٹرول میں دینا ہے۔ دوسری جانب حکومت پاکستان کا موقف ہے کہ اس ترمیم کا بنیادی مقصد مقامی قیمتوں میں استحکام لانا، ایکسچینج ریٹ پالیسی تشکیل دینا، ملک کے تمام بین الاقوامی ذخائر رکھنا، کرنسی جاری کرنا، مانیٹری پالیسی کا تعین کرنا اور اس پر عمل کروانا ہو گا۔ نئی ترامیم کے مطابق حکومت پر سٹیٹ بینک سے قرضہ لینے پر پابندی ہوگی، اسٹیٹبینک کسی حکومتی محکمے یا عوامی ادارے کو براہ راست قرضہ نہیں دے گا، نہ ہی حکومت کی جانب سے داخل کیے گئے کسی سرمایہ کاری یا قرضے کی ضمانت لے گا اور حکومت کی جانب سے کوئی سیکیورٹی نہیں خریدے گا، البتہ جنرل ذخائر کم ہونے کی صورت میں وفاقی حکومت سٹیٹ بینک کو 30 روز کے اندر ضروری کیش ادا کرے گی۔
یاد رہے کہ سٹیٹ بینک کے 24 دسمبر 2021 تک کے مالیاتی اعداد و شمار کے مطابق حکومت پاکستان اب تک مرکزی بینک سے 5.3 کھرب روپے کا قرض لے چکی ہے، تاہم ترجمان وزرت خزانہ کے مطابق حکومت نے پچھلے دو سالوں میں سٹیٹ بینک سے کوئی قرض نہیں لیا بلکہ 21-2020 میں اس نے مرکزی بینک کو 1.5 کھرب روپے واپس کیے ہیں۔ وزارت خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ عالمی مالیاتی ادارے یعنی آئی ایم ایف کے پروگرام کے پانچ اہداف میں سے نہایت اہم نکتہ ہے، ہم اب تک مالیاتی نظم و ضبط، ٹیکس کے نظام میں بہتری، توانائی کے نرخوں میں اضافہ اور اخراجات میں احتیاط کے حوالے سے کافی کام کر چکے ہیں، پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان چھٹے جائزے سے قبل ان پالیسیوں اور اصلاحات پر عمل درامد لازم ہے۔ مزمل نے بتایا کہ ملک کی 74 سالہ تاریخ میں آج تک سٹیٹ بینک کی تعریف ہی نہیں لکھی گئی کہ مرکزی بینک کیا ہے اور اس کا کیا کام ہے؟ اس ترمیم کے ذریعے پہلی بار یہ لکھا گیا ہے کہ سٹیٹ بینک کا کام مقامی قیمتوں میں استحکام لانا ہے، یہ بھی لکھا گیا ہے کہ سٹیٹ بینک کے گورنر کی تعلیم و تجربہ کتنا ہونا چاہئے اور انہیں ملازمت پر رکھنے کا طریقہ کار کیا ہوگا، نہ صرف گورنر بلکہ ڈپٹی گورنر اور ایگزیکیٹو ڈائریکٹرز کے لیے بھی یہ قواعد واضح کیے گئے ہیں۔
مزمل اسلم نے دعویٰ کیا کہ حکومت اب سٹیٹ بینک کو حقیقی طور پر خودمختار کرنے جا رہی ہے، ہم نے اس پر پہلے ہی عملدرامد شروع کر دیا تھا، ابھی تک ہمیں کسی بھی قسم کے مسائل کا سامنا نہیں ہوا ہے، مثال کے طور پر سٹیٹ بینک کی مانیٹری اور ایکسچینج ریٹ پالیسی آج بھی پوری طرح سے خود مختار ہے، پچھلے دو سالوں میں دو بار ایکسچینج ریٹ کم ہوا، حکومت پاکستان نے یہ خود مختاری جون 2019 میں سٹیٹ بینک کو دے دی تھی اور آج بھی یہی صورت حال ہے، ایکسچینج ریٹ اب کسی کی فرمائش یا خواہش کے بجائے طلب اور رسد پر چلتا ہے۔
تاہم سٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی ایکٹ 2021 کے سیکشن 46 بی کے مطابق حکومت پاکستان یا اس کے ماتحت کوئی بھی ادارہ اب کسی بھی طرح سٹیٹ بینک کے ادارتی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرسکے گا۔ یاد رہے کہ اس وقت سٹیٹ بینک کے موجودہ گورنر رضا باقر بھی آئی ایم ایف کے سابقہ ملازم ہیں اور ناقدین یہ الزام لگا رہے ہیں کہ ترمیم کے ذریعے مرکزی بینک کو خود مختار نہیں بنایا گیا بلکہ آئی ایم ایف کا غلام بنا دیا گیا ہے۔ ترجمان وزارت خزانہ مزمل اسلم کے مطابق یہ تاثر غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تائثر بھی درست نہیں کہ نیب، ایف آئی اے یا کوئی صوبائی تحقیقاتی ایجنسی، اتھارٹی یا بیورو سٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری کے بغیر بینک کے کسی فرد کے خلاف تحقیقات کا آغاز نہیں کر سکیں گے۔ انکا کہنا تھا کہ بدیانتی ثابت ہونے کی صورت میں اس کی تحقیقات کی جا سکتی ہیں۔
کیا اب آئی ایس آئی عمران خان کو بچانے نہیں آئے گی؟
سٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ کے مطابق وفاقی سیکرٹری خزانہ بورڈ ممبران میں شامل ہوں گے مگر انہیں ووٹ کا اختیار نہیں ہوگا۔ مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر کا کہنا ہے کہ سٹیٹ بینک کی خود مختاری سے پاکستان کی معاشی صورت حال میں بہتری ممکن نہیں، سٹیٹ بینک کی مانٹری پالیسی اور وزارت خزانہ کی فسکل پالیسی ترتیب دینے کے لیے دونوں اداروں کا آپس میں قریبی رابطہ بہت ضروری ہے کیونکہ دونوں کا ہدف پاکستان کی معاشی صورت حال میں استحکام لانا اور مہنگائی کو کم کرنا ہے، اس قانون کی وجہ سے سٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کے درمیان باہمی تعلق ختم ہو جائے گا اور کوئی تعاون نہیں ہوگا۔ البتہ ایکٹ میں تجویز کیا گیا کہ سٹیٹ بینک کے گورنر اور وزیر خزانہ کے درمیان قریبی رابطہ قائم ہو تاکہ سٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ سے جڑے اہم معاملات پر فوری تبادلہ خیال کیا جا سکے۔
سابق گورنر زبیر نے سوال اٹھایا کہ سٹیٹ بینک خود مختار ہونے کے بعد پاکستان کی اقتصادی ترقی اور معاشی اہداف سے پوری طرح لاتعلق ہوجائے گا، اس صورت میں بننے والی مانیٹری پالیسی پاکستان کے حق میں کیسے ہوگی؟ زبیر کے مطابق ہم پہلے بھی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ سٹیٹ بینک پوری طرح حکومت کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے، اب اگر سٹیٹ بینک مکمل مختار ہوگیا تو کاغذ پر لکھے ہونے کے باوجود بھی حکومت پاکستان اور پارلیمنٹ کو جواب دہ نہیں ہوگا، سٹیٹ بینک اپنی منطق کے مطابق مانیٹری پالیسی بنائے گا جوکہ آئی ایم ایف کی خواہشات کے مطابق ہوگی، سٹیٹ بینک کے تمام معاملات میں آئی ایم ایف مائیکرو مینج کرے گا جس میں کرنسی نوٹوں کی چھپائی، کمرشل بین کے مسائل بھی شامل ہو سکتے ہیں۔