سہیل وڑائچ کی اڈیالہ جیل میں عمران سے خفیہ ملاقات کی کہانی
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیراعظم عمران خان سے ایک خفیہ ملاقات کے بعد بتایا ہے کہ قیدی نمبر 804 نے وسیع تر قومی مفاد میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک قومی حکومت کے قیام اور اس کا حصہ بننے کی تجویز پر اتفاق کر لیا ہے۔
اڈیالہ جیل میں عمران خان سے اپنی خفیہ ملاقات کی تفصیل بتاتے ہوئے سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ رات کا گھپ اندھیرا تھا، ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا، مگر میں کسی نہ کسی طرح اڈیالہ جیل پہنچ گیا، اسکے بعد جیلر کی آنکھوں میں دھوک جھونک کر میں خان کی بیرک تک جا پہنچا۔ میں نے وارڈ کے دروازے کو زور سے کھٹکھٹایا تو سویا ہوا خان ہربڑا کر اٹھ بیٹھا، اس نے دروازے کے قریب آ کر مجھے دیکھا پہچاننے کی کوشش کی اور پھر بالا، سہیل، تم بھی جیل پہنچ گئے، انہوں نے تمہیں بھی پکڑ لیا، یہ لوگ تھوڑا سا سچ بھی برداشت نہیں کرتے، اب انہوں نے صحافیوں کو بھی جیل بھیجنا شروع کر دیا ہے۔
سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کی میں اس اچانک حملے سے گھبرا گیا، مگر خان کے دو تین فقروں کے بعد میں نے کہا کہ میں جیل میں بند نہیں ہوا، بلکہ یہاں صرف آپ سے خفیہ ملاقات کیلئے آیا ہوں، میں جیلروں سے جھوٹ سچ بول کر آپ تک پہنچا ہوں تاکہ ملک میں جاری بحران کے بارے میں بات کر سکوں۔ اس پر خان نے کہا دیکھو، 24 نومبر کو انہیں پورا ملک بند کرنا پڑا، یہ مجھ سے خوفزدہ ہیں، میں جو چاہتا تھا وہ ہو گیا، ثابت ہو گیا کہ تحریک انصاف جب چاہے پورا ملک بند کر سکتی ہے، ملک میں اور کونسی ایسی سیاسی قوت ہے جو یہ کام کر سکے۔ اس پر میں چپ رہا۔ خان نے کہا، سہیل تمہیں یاد ہے جب ہم اکٹھے میانوالی گئے تھے اور کالا باغ ڈیم کے پاس ٹرک اڈے کا کھانا کھایا تھا؟ میں نے مسکرا کر کہا جی مجھے یاد ہے۔ آپ نے اسی انٹرویو میں پہلی بار جمائما خان سے اختلافات کا انکشاف کیا تھا۔ اس۔پر خان نے سرد آہ بھری، شاید اسے اپنی پہلی بیوی اور بچے یاد آ گے تھے۔
سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ خان کی صحت ٹھیک ٹھاک تھی، اس کی شیو بنی ہوئی تھی، اس نے بتایا کہ ابھی اس نے سخت ورزش کی ہے اسلئے گہری نیند لے رہا تھا، پھر خان نے کہا کہ میری رہائی کے لیے تحریک زوروں پر ہے، قافلے روانہ ہو چکے ہیں اور اسلام آباد میں دھرنا دینے کے بعد تب تک نہیں اٹھیں گے جب تک میری رہائی نہیں ہوتی۔ پھر خان نے مجھ سے پوچھا خیر تم بتائو یہاں کیسے آئے ہو۔ میں نے عرض کی کہ خان صاحب آپ کافی اندھیرے میں رکھے جا رہے ہیں، آپ کو غلط اطلاعات مل رہی ہیں۔ میں آپ کو الیکشن سے پہلے بھی کہتا رہا کہ آپکو مقبولیت تو حاصل ہے لیکن قبولیت حاصل نہیں، اس پر میرا مذاق اڑایا گیا، لیکن تلخ حقیقت یہی تھی۔ آج میں آپ سے دست بستہ عرض کر رہا ہوں کہ آپ کی مقبولیت تو برقرار ہے مگر آپ کی اپنے چاہنے والوں پر گرفت نہیں ہے۔ پنجاب آپ کے حامیوں سے بھرا پڑا ہے۔ لاہور میں تحریک انصاف کا غلغلہ ہے مگر کوئی ایک جلوس، ایک بڑا جتھا یا کوئی مشتعل شخص باہر نہیں نکلا، جس سے پتہ چل رہا ہے آپ کے پاس ایسا ہجوم ہے جسکا کنٹرول آپ کے پاس نہیں۔
سہیل وڑائچ کے بقول میں نے خان سے کہا کہ آپ کے پاس نہ تنظیم ہے اور نہ ہی ڈسپلن، کوئی احتجاجی تحریک ان کے بغیر نہیں چلتی، پورے پنجاب میں صرف میانوالی سے ہتھیار بند سرفروش نکلے ہیں اور حفاظتی ناکوں کو توڑتے ہوئے اسلام آباد کے قریب پہنچے ہیں۔ ہزاروں کا جلوس صرف پختونخوا سے ہی آ رہا ہے باقی سوائے اٹک اور میانوالی کے پنجاب میں مکمل سکوت ہے، آپ کے شیدائی تو بہت ہیں سوشل میڈیا پر مگر یہ گفتار کے غازی ہیں کردار کے نہیں، یہ شیدائی محفوظ اننگز کھیلتے ہیں، چوکا چھکا مارنے کا حوصلہ نہیں کر پاتے، بس ٹک ٹک کرکے کھیلنا چاہتے ہیں۔
سہیل وڑائچ کے بقول میری باتیں سننے کے بعد خان صاحب نے کہا سہیل، مجھے آپ کی باتوں پر یقین نہیں ہے، آپ بھی لفافی ہو گئے ہو۔ ہر کسی کو میری فتح کا علم ہے، میں جیت گیا ہوں، حکومت اور فوج ہار گئی ہے، میری اخلاقی فتح ہوئی ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ اخلاقی فتح تو ہم مثالیت پسندوں کے باغ کی مولی ہے، آپ تو عملیت پسند ہیں، آپ کو مادی فتح نہ ملی تو اسے آپ کو شکست ہی ماننا پڑے گا، اخلاقی فتح تو ہمیشہ سے ہارے ہوئے لوگوں کا نظریہ ہے کیونکہ ہم ملامتی ہمیشہ ہار کر بھی جیتتے ہیں، ہماری ہر شکست میں فتح ہوتی ہے۔ میں نے خان سے کہا کہ آپ صوفی ضرور ہونگے مگر آپ تو مادی فتح والے سیاست دان ہیں۔
عمران خان نے جواب دیتے یوئے کہا کہ دیکھو سہیل، حد ہو گئی ہے، 2024ء میں دھاندلی کی انتہا ہو گئی، عدالتوں کو ترمیم کے ذریعے انصاف دینے سے روک دیا گیا، فوج جانبدار ہو چکی ہے، حکومت میں بیٹھے سیاست دان بے غیرت ہیں، انہیں شرم نہیں آتی، یہ لوگ جعلی مینڈیٹ پر حکومت کر رہے ہیں، سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ یہ سن کر میں نے ایک قدم پیچھے ہٹ کر ہاتھ باندھ لئے۔ خان ایک لمحے کیلئے ششدر ہوا پھر مسکرا کر بولا، کیا ہوا، میں نے عرض کیا کہ جو آپ آج کہہ رہے ہیں 2018ء میں یہی بات آپ کے مخالف کہا کرتے تھے، وہ کہتے تھے کہ آپ دھاندلی سے بنائے گے سلیکٹڈ وزیر اعظم ہیں، وہ کہتے تھے فوج نے آپ کو جتوایا ہے، تب عدالتوں نے نون لیگ کیخلاف فیصلے دیئے تھے۔
سہیل بتاتے ہیں کہ میں نے خان کو کہا کہ تب فوج آپ کیساتھ ایک صفحہ پر تھی اور آپ اسکا فخریہ اعتراف بھی کرتے تھے، ہو سکتا ہے کہ آپ کیساتھ زیادہ زیادتی ہو گئی ہو مگر فرق تھوڑا ہی ہے، جو کچھ ان کے ساتھ ہوا وہی آپ کے ساتھ ہو رہا ہے، لیکن آپ کو درد زیادہ محسوس ہو رہا ہے کیونکہ آپ کو جیل کی عادت نہیں ہے۔
اس پر ناراض ہوتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ہمارے ساتھ تو حد ہو گئی ہے، ہماری عورتوں تک کو بند کر دیا گیا ہے، لوگوں کے گھر توڑ دیئے گئے، اتنا ظلم کبھی نہیں ہوا، میں نے پھر دست بستہ عرض کی کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا، پاکستان بننے کے بعد کمیونسٹوں کیساتھ کیا کیا ظلم نہ روا رکھے گئے، 80ء کی دہائی میں اکثر کمیونسٹ سزائوں اور مشکلات، جاسوسی اور ظلم و ستم کے باعث آ دھے پاگل اور ابنار مل ہو چکے تھے، جو چند بچ گئے تھے وہ نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو گئے تھے، اگلے پندرہ بیس سال پیپلز پارٹی کوڑوں، جیلوں اور پھانسیوں کو بھگتتی رہی، یہاں تو یہ سلسلہ شروع سے ہی چل رہا ہے۔ یہاں کبھی کوئی مظلوم ہوتا ہے تو کبھی وہی ظالم بن جاتا ہے۔
سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ خان کو نہ میرے تجزیے سے اتفاق تھا اور نہ ہی اسے میری باتیں پسند آ رہی تھیں، اس نے مجھے ٹالنے کی خاطر سوال کیا کہ اچھا پھر بتائو کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ لچک دکھاتے ہوئے مصالحت کی طرف پیش قدمی ہی واحد حل ہے۔ اس پر خان نے کہا کہ یہ ہر بار مجھے دھوکہ دیتے ہیں پچھلے دروازے سے مذاکرات شروع کرتے ہیں اور پھر اپنا کام نکلوا کر وعدے پورے نہیں کرتے۔ ان سے اب بات نہیں کرنی اب معاملہ سڑکوں پر ہی طے ہو گا۔ اس پر میں نے عرض کی کہ نہیں، ایسا نہ کریں، آپ ایک مقبول سیاستدان ہیں لہازا آپ کو راستہ نکلنا چاہئے، خان نے فوراً پوچھا راستہ ہے کیا ؟ میں نے کہا وہی راستہ جو نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے 2018ء میں اختیار کیا تھا، وہی راستہ آج آپ اختیار کریں، جیسے انہوں نے دھاندلی کے باوجود سسٹم کو مان لیا تھا، آپ بھی مان لیں، جس طرح انہوں نے آہستہ آہستہ فوج سے پیار کی پینگیں بڑھائیں، آپ بھی بڑھا لیں۔
عمران خان اور فیض حمید طالبان کو واپس لا کر بسانے کے مجرم قرار
سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ میں نے خان کو مشورہ دیا کہ آپ بھی قومی حکومت میں شامل ہو کر آئندہ انتخابات کو منصفانہ اور غیر جانبدارانہ بنوا لیں، یہی آپکی فتح ہو گی۔ میں نے کہا کہ آج حکومت مہنگائی کی وجہ سے روز بروز غیر مقبول ہو گی، آپ اسمبلی میں بیٹھ کر اس پر تنقید کریں، لیکن ہڑتالیں، دھرنے اور لانگ مارچ چھوڑیں، آپ اسمبلی کی سیاست کریں، آپ لیڈر آف دی اپوزیشن بنیں اور آئندہ حکومت کیلئے تیاری کریں، آپ نئے دور اور نئی سیاست کا آغاز کریں۔ خان نے حیرت زدہ ہو کر میری طرف دیکھا، اسکے چہرے پر ایک رنگ غصے کا تھا اور ایک رنگ حیرت کا، وہ بولا، ہاں قومی حکومت کے قیام پر بات چیت ہو سکتی ہے۔
سہیل وڑائج بتاتے ہیں کہ یہ سن کر میرا دل خوش ہو گیا، میں نے آگے بڑھ کر خان سے وفور جذبات میں ہاتھ ملانا چاہا تو اچانک اپنی گردن پر ایک اجنبی ہاتھ کی گرفت محسوس ہوئی، پھر میری کمر پر ای ڈنڈے کا وار ہوا، میں تکلیف سے دوہرا ہو گیا، سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ وار کس نے کیا ہے، پھر میں درد سے کراہتا ہوا اچانک نیند سے بیدار ہو کر اپنے بستر سے اٹھ بیٹھا….