’’حق و باطل‘‘ کی جنگ اور ہکے بکے عوام
تحریر : حماد غزنوی
بشکریہ: روزنامہ جنگ
سود وزیاں سے بے نیاز ہو کر، فتح و شکست کی امید اور اندیشوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، حق محض اس لیے کہ حق ہے، اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اُس کا ساتھ دیا جائے۔ یہ تو ہوگئی اصول کی بات، لیکن زندگی پیچیدگی سے عبارت ہے، زندگی میں ’’حق‘‘ اور ’’باطل‘‘ دو علیحدہ خانوں کا نام نہیں ہے، بلکہ اکثر تو حق وباطل کی سرحدیں دھندلی ہو جایا کرتی ہیں۔برسوں پہلے مظفرآباد آزاد کشمیر جانے کا اتقاق ہوا، وہاں ایک جگہ ہے ’دومیل‘ جہاں گنگاکشن دریا، جسے ہم دریائے نیلم کہتے ہیں، دریائے جہلم میں گرتا ہے، ایک دریا کا پانی نیلا ہے، ایک کا بھورا، ایک دریا کے اندر گویا دو دریا علیحدہ علیحدہ بہہ رہے ہوتے ہیں، آدھا دریا نیلا اور آدھا بھورا، کچھ دور تک یہ سحرناک منظر چلتا ہے اور پھر دونوں پانی ایک دوسرے میں ضم ہونے لگتے ہیں، حتیٰ کہ اپنی منفرد شناخت کھو بیٹھتے ہیں۔ کبھی کبھی حق وباطل کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی لگنے لگتا ہے۔
آئیے ایک فرضی دنیا میں چلتے ہیں، جہاں الیکشن ہو رہے ہیں، دو متحرک سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی حریف ہیں، ایک جماعت کی قیادت ایڈولف ہٹلر کر رہے ہیں اور دوسری سیاسی جماعت کے قائد بنیٹو مسولینی ہیں، دونوں جماعتیں آپ کے ووٹ کی طلب گار ہیں، تو کیا خیال ہے آپ کسے ووٹ ڈالیں گے؟ ووٹ نہ ڈالنے کا آپشن موجود نہیں ہے، لہٰذا آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں ان دونوں میں سے کسی کو ووٹ نہیں دوں گا، ووٹ تو بہرحال ڈالنا پڑے گا۔تو پھر آپ کیا فیصلہ کریں گے، ہٹلر کہ مسولینی؟ منطق کی آگ روشن کریں، دلائل کی ہنڈیا چڑھائیں، دل و دماغ کو ٹٹولیں، باریکی سے موازنہ کریں، فیصلہ کریں، وقت کم ہے۔اگر آپ کو فیصلے میں دشواری پیش آ رہی ہے تو کوئی بات نہیں، چھوڑیے اس الیکشن کو، آپ کو مزید آپشنز دیتے ہیں۔اگر چنگیزخان اور ہلاکو خان کے درمیان الیکشن ہو تو آپ کسے ووٹ دیں گے؟ احمد شاہ ابدالی اور نادر شاہ افشار میں سے کسے ووٹ دیں گے؟ چلیے ان سب کو بھی چھوڑیے، یہ فرمایے کہ اگر ایوب خان اور یحییٰ خان میں سے کسی ایک کو چننا پڑے تو آپ کسے چنیں گے؟ ایک شو کیس میں ’’حق‘‘ سجا ہوتا، اور ایک میں ’’باطل‘‘ تو ہم جیسوں کو کتنی سہولت ہو جاتی، مگر افسوس ایسا نہیں ہے۔ لمحے بھر کوعقائد و تعصبات معطل کر دیے جائیں تو دنیا کی ہر جنگ کی دو کہانیاں ہوا کرتی ہیں۔ اور سیاست تو ویسے بھی حق وباطل کی جنگ نہیں ہوا کرتی، سیاست تو سیدھا سیدھا دو برائیوں میں سے کم تر برائی چننے کا عمل ہے۔
مشاہدہ بتاتا ہے کہ ملکی سیاست پر بات کرتے ہوئے اکثر آوازیں یک دم غراہٹوں میں بدل جاتی ہیں اس لیے اس تمہید کی کوئی تطبیق نہیں کی جائے گی۔ بہرحال گرد وپیش پر نظر دوڑاتے ہیں۔ اسیر ِ اڈیالہ جیل نے حکومت کے دھڑن تختے کیلئے ایک اور تاریخ دی ہے، انہوں نے اعلان کیا ہے کہ ’’مارو یا مر جائو‘‘ کا وقت آن پہنچا ہے ، 24 نومبر ’’حقیقی آزادی‘‘ کا دن ہے۔ اس حتمی تاریخ کی غایت بارے کئی باتیں سنتے ہیں، یعنی فیض حمید کا اقبالی بیان فضا میں گونجنے کو ہے، فوجی عدالتوں کے سائے اڈیالہ تک دراز ہونے والے ہیں، کہیں سے عمران اور مقتدرہ کے درمیان رابطوں کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔یہ سب تو پسِ پردہ سرگوشیاں ہیں، پردے پر منظر کچھ یوں ہے کہ عمران کے ’جگری‘ یار ٹرمپ امریکا کا صدارتی انتخاب جیت گئے ہیں اور پی ٹی آئی کے دوست واشنگٹن رُو ہو کر مناجات آغاز کر چکے ہیں، اور پرُیقین ہیں کہ نالوں کا جواب آخر آنے کو ہے۔ عمران خان کی ’فائنل‘ کال کے مخاطب بالخصوص اوور سیز پاکستانی بھی ہیں، یعنی چھبیسویں ترمیم اور عدلیہ سے امداد کی امید ختم ہونے کے بعد عمران اس قضیے کو بیرونی دبائو سے حل کرنے کی سرتوڑ کوشش میں ہیں۔لیکن مرکزی نقطہ اب بھی وہیں کا وہیں ہے، کیا پی ٹی آئی اپنے دو چار لاکھ حامی سڑکوں پر لا سکتی ہے؟ اور کیا وہ مظاہرین پُر تشدد ہوسکتے ہیں، اور کیا کچھ لاشیں میسر آ سکتی ہیں؟ جو بڑے پیمانے پر سیاسی انارکی کا نقطہء آغاز بن سکیں؟ جب کہ عوام بالخصوص پنجاب کے عوام، اب تک اس ’جہاد‘ میں شامل ہونے پر تیار نظر نہیں آتے۔ پارٹی خود انتشار کا شکار ہے، قیادت تھکی ہوئی ہے، ڈری ہوئی ہے۔ اندازہ لگائیے کہ پی ٹی آئی کی احتجاجی کمیٹی کے نام خفیہ رکھے گئے ہیں، اس نوع کا اہتمام تو حماس اور حزب اللہ بھی نہیں کرتے۔ بشریٰ صاحبہ بھی نیم اخفا میں روبہ عمل ہیں۔پارٹی قیادت کا بڑا حصہ اس مہم جوئی سے گھبرا رہا ہے، خصوصاً مقامی قیادت یہ بوجھ اٹھانے سے ہچکچا رہی ہے۔دوسری طرف حکومت اور اس کے پشتی بان بھی معرکے کیلئے ہر حد تک جانےکیلئے تیار ہیں،ان کے اسٹیک بہت بڑے ہیں، کیوں کہ عمران تو صاف لفظوں میں کہہ رہے ہیں کہ حکومت ان کے حوالے کر دی جائے ورنہ وہ یہ حکومت بلکہ یہ پورا سسٹم الٹانے کیلئے ہر جتن کریں گے۔
شرطیہ پرانا پرنٹ اور داغوں کی بہار
اب تک عمران خان کی جارحانہ سیاسی حکمتِ عملی انہیں رہائی نہیں دلا سکی، ان کی جیل لمبی ہوتی جا رہی ہے۔اتنے عرصے میں لچک دار دماغ اپنے اور اپنی جماعت کیلئے کوئی راستہ نکال سکتا تھا، پارٹی کو مجتمع کر سکتا تھا، اور ایک دفعہ پھرایوانِ اقتدار کی طرف پیش قدمی آغاز کر سکتا تھا، جیسا کہ نواز شریف نے کر کے دکھایا تھا۔مگر بہرحال عمران خان عمران خان ہیں جو آخری خبریں آنے تک پوری رفتار سے ٹکر مارنے کیلئے بیل کی طرف دوڑ رہے ہیں۔ چلتے چلتے یہ بتاتے جائیے کہ آپ نے پھر کیا فیصلہ کیا، آپ کس کے ساتھ ہیں… اب یہ نہ کہہ دیجیے گا کہ ’’میں حق کے ساتھ ہوں۔‘‘