نواز شریف کو آؤٹ کرنے والے مایوس کیسے ہوئے؟

سپریم کورٹ کے فیصلے سے پارلیمانی بالا دستی اور عدلیہ کی آزادی کا تصور پوری طرح اجاگر ہو چکا ہے،سپریم کورٹ نے پارلیمان کے حق قانون سازی کو تسلیم کرتے ہوئے اس حقیقت کو آشکار کر دیا کہ پارلیمان کو سپریم کور ٹ سے متعلق قانون سازی کا اختیار حاصل ہے اور اس سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوئی ۔سپریم کورٹ نے گو کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کے لیے پارلیمان کی جانب سے کی گئی قانون سازی کو کثرت رائے سے آئین اور قانون کے مطابق قرار دیا۔
تاہم سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت ماضی میں عدالت عظمیٰ کی جانب سے سوموٹو کیسز اور آرٹیکل 184 (4) کے دیے گئے فیصلوں کے خلاف اپیل ماضی سے دینے کا حق کثرت رائے سے غیرقانونی قرار دے دیا ہے۔اس کے ساتھ ہی میڈیا، سوشل میڈیا اور سیاسی حلقوں میں یہ بحث چل رہی ہے کہ اس شق کو کالعدم قرار دینے کی وجہ سے سابق وزیراعظم نواز شریف، جہانگیر ترین اور دیگر سیاسی شخصیات عدالتوں سے تاحیات نااہلی کے فیصلوں کے خلاف اپیل دائر نہیں کر سکیں گے اور ان کو ریلیف نہیں ملے گا۔چونکہ سابق وزیر اعظم نواز شریف لندن سے براستہ سعودی عرب پاکستان روانہ ہو چکے ہیں اس لیے ان کا کیس خصوصاً زیر بحث ہے۔ تاہم قانونی ماہرین کے مطابق اگرچہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر کے نااہلی کی مدت 5 سال مقرر کی جا چکی ہے اس لئے نواز شریف یا جہانگیر ترین پر الیکشن لڑنے کی کوئی پابندی نہیں اور دوسرا یہ کہ نواز شریف کو اگرچہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اپیل کا حق تو حاصل نہیں تاہم ریویو کا حق انھیں اب بھی حاصل ہے اور وہ پانامہ کیس کا ریویو فائل کر کے بھی اپنی تاحیات نااہلی ختم کرنے کی استدعا کر سکتے ہیں۔
تاہم مختلف صحافیوں سمیت ان کے مخالفین کہہ رہے ہیں کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ بارے سپریم کورٹ کے فل بینچ کے اکثریتی ججز کا فیصلہ نواز شریف کے لیے بہت بڑا دھچکہ ہے اور ان کو ریلیف ملنے کے امکانات ختم ہو گئے ہیں۔
سینیئر صحافی محمد مالک نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’سپریم کورٹ کا فیصلہ نواز شریف کی واپسی کے منصوبے کے لیے بہت بڑا دھچکہ ہے۔ ان کی مستقبل کے حوالے مزید قانونی سوالات پیدا ہوگئے ہیں جو کہ پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ ان کی واپسی کے بعد آسانی سے حل ہو جائیں گے۔ مجھے تعجب نہیں ہوگا کہ 21 اکتوبر کی واپسی کی تاریخ میں کوئی تبدیلی ہو۔‘
تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا نواز شریف سے کیا تعلق ہے؟چونکہ اس قانون کی ایک شق کے تحت سوموٹو اور سپریم کورٹ کے بنیادی اختیار سماعت کے تحت فیصلہ کیے گئے کیسز میں اپیل کا حق دیا گیا تھا اوراس حق کا اطلاق ماضی میں کیے گئے تمام فیصلوں پر ہونا تھا۔ چونکہ نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ آرٹیکل 184 (3) کے تحت کیس میں کیا گیا تھا اس لیے اس کیس میں نواز شریف کو اس فیصلے کے خلاف اپیل کا حق ملنا تھا۔اب سپریم کورٹ نے ماضی سے اپیل کا حق دینے کی شق کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے اس لیے اب نواز شریف اپنی نااہلی کے خلاف اپیل دائر نہیں کر سکیں گے۔ نواز شریف کی نااہلی صادق اور امین نہ ہونے پر آرٹیکل 63 (1) (ایف) کے تحت ہوئی تھی۔ مذکورہ آرٹیکل میں نااہلی کی مدت کا کوئی ذکر نہیں ہےبعد میں سپریم کورٹ نے ایک کیس میں آئینی تشریح کے ذریعے اس آرٹیکل کے تحت نااہلی کو تاحیات قرار دیا تھا۔گوکہ نواز شریف، جہانگیر ترین اور دیگر سیاستدان اس آرٹیکل کے تحت نااہل ہوئے تھے اور سپریم کورٹ کی تشریح کی روشنی میں ان کی نااہلی تاحیات قرار پائی تھی۔تاہم گذشتہ اتحادیحکومت نے پارلیمان کے ذریعے الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 232 میں ترمیم کرکے اس آرٹیکل کے تحت نااہلی کی مدت کو پانچ سال کر دیا تھا۔
اس لیے بہت سے قانونی ماہرین کے مطابق سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا نواز شریف کی تاحیات ناہلی والے معاملے پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ان کا کہنا ہے کہ چونکہ نواز شریف الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے مقررہ نا اہلی کی مدت گزار چکے ہیں اس لیے اگر نیب کیسز میں نواز شریف کی اسلام آباد ہائی کورٹ سے بریت ہوتی ہے تو ان کے الیکشن میں حصہ لینے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں رہے گی۔
آئینی امور کے ماہر اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی کے صدر احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ الیکشن ایکٹ میں اس ترمیم اور اس کے نتیجے میں نااہلی کی مدت کے تعین کے حوالے سے قانونی ماہرین میں اختلاف ہے۔
’بعض ماہرین کہتے ہیں کہ چونکہ آئین کی کسی شق میں ابہام پر سپریم کورٹ کی جانب سے اس کی تشریح کی جاتی ہے اور سپریم کورٹ کی تشریح کی حیثیت بھی آئین جیسی ہے اور اسے پارلیمان کی عام قانون سازی کے ذریعے تبدیل نہیں کی جاسکتی۔ اس کے لیے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہوتی ہے۔‘ان کے مطابق گوکہ اس قانون کے مطابق نواز شریف کی نااہلی ختم ہوچکی ہے لیکن اس ترمیم کے مستقبل کا فیصلہ بھی شاید عدالت عظمی کو کرنا پڑ جائے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کو عدالت میں کسی نے چیلینج نہیں کیا تو بھی یہ معاملہ کاغذات نامزدگی جمع کراتے ہوئے سامنے آسکتا ہے۔
احمد بلال محبوب کے مطابق ان کے خیال میں نااہلی کی مدت کا قانون کے ذریعے تعین درست ہے کیونکہ آئین میں کسی بھی جرم پر نااہلی کی زیادہ سے زیادہ مدت پانچ سال ہے۔’آئین میں اس سے زیادہ سنگین جرائم یعنی ملک سے غداری تک کے جرم پر سزا ہونے کی صورت میں بھی زیادہ سے زیادہ نااہلی پانچ سال ہے۔‘
دوسری جانب آئینی ماہر اور لاہور کے لمز یونیورسٹی کے پروفیسر سامہ خاور گھمن نے اس حوالے سے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’سپریم کورٹ کی جانب موثر بہ ماضی اپیل کے حق کو کالعدم قرار دینے کے باوجود، نواز شریف اور جہانگیر ترین پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے الیکش ایکٹ 2017 کے سیکشن 232 میں کی گئی ترمیم کی بدولت الیکشن لڑسکتے ہیں۔ اس ترمیم کے تحت آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے اندر نااہلی کی مدت کم کرکے پانچ سال کی گئی ہے جو کہ سپریم کورٹ کی جانب سے نااہلی کی مدت تاحیات کرنے کے فیصلے کے برعکس ہے۔ نواز شریف کو الیکشن لڑنے سے روکنے کے لیے کسی آئینی عدالت کو اس ترمیمی سیکشن کو آئین
اسرائیل مخالف جناح پر برطانوی ایجنٹ ہونے کا الزام کس نے لگایا؟
سے متصادم قرار دینا پڑے گا۔‘