ترین اور علیم گروپ کا رشتہ ٹوٹنے کے خدشات پیدا ہو گئے
وزیراعظم عمران خان کے لیے اچھی اوراپوزیشن جماعتوں کے لئے بری خبر یہ ہے کہ تحریک انصاف سے بغاوت کرنے والے جہانگیر ترین اور علیم خان گروپوں میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر اختلافات پیدا ہونے کے بعد اب دونوں کے راستے جدا ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے.
ذرائع نے بتایا ہے کہ ترین گروپ کے سخت گیر ارکان نے علیم خان کی شمولیت کے بعد وزارت اعلی پر نظریں جمانے کو پورے گروپ کو ہائی جیک کرنے کی کوشش قرار دے دیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ترین گروپ تحریک انصاف میں رہتے ہوئے وزیر اعلی کی تبدیلی کا خواہشمند ہے جبکہ علیم خان گروپ نواز لیگ کی مدد سے وزیر اعلی بننا چاہتا ہے جس کے بعد یہ لوگ اگلے الیکشن میں نواز لیگ کا حصہ بن جائیں گے۔ علیم خان گروپ وزیر اعلی پنجاب کی تبدیلی کا خواہشمند ہے، جب کہ ترین گروپ کی ترجیح وزیراعظم کو تبدیل کرنا یے ۔
ایک طرف علیم خان گروپ کے پاس 15 سے زائد اراکین پنجاب اسمبلی کی حمایت موجود ہے، اور اس میں کوئی ایم این اے شامل نہیں۔ جب کہ دوسری طرف ترین گروپ میں شامل کئی اراکین قومی اسمبلی کے مسلم لیگ (ن) سے معاملات طے پانے کے قریب ہیں جس کے بعد انہیں اگلی الیکشن کیلئے نواز لیگ کے ٹکٹس کی یقین دہانی مل جائے گی۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر جہانگیر ترین نے علیم خان کو وزیر اعلی پنجاب کا امیدوار بنانے کی کوشش کی تو ان کا اپنا گروپ مزید انتشار کا شکار ہوجائے گا جس کا انھیں سخت سیاسی نقصان ہوگا لہٰذا انھیں بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہو گا۔ دونوں گروپس کے سرکردہ رہنما اختلافات کے خاتمے کے لئے متحرک ہیں جنکا نتیجہ لندن میں ترین اور علیم کی ملاقات کے بعد سامنے آنا ہے۔ ممبران پنجاب اسمبلی پر مشتمل ترین گروپ کے علیم مخالف دھڑے کا دعوی ہے کہ علیم خان کا 40 اراکین اسمبلی کی حمایت ہونے کا دعویٰ غلط ہے، اور ان کے ساتھ صرف تین ممبران ہیں۔ یہ اطلاع عمران خان کے قریبی حلقوں کو بھی مل چکی ہے چنانچہ علیم خان کو منانے کے لیے ابھی تک کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
ذرائع کا کہنا یے کہ علیم خان کو ن لیگ کی جانب سے وزارت اعلی کے لیے تھپکی مل چکی ہے اور اسی لیے وہ متحرک ہو کر میدان میں اتر آئے ہیں۔ جہانگیر ترین کی رہائشگاہ پر انکے گروپ میں شمولیت سے قبل علیم خان نے اپنے گروپ کے اجلاس کی صدارت کی تھی جس میں 10 اراکین اسمبلی نے شرکت کی اور دو صوبائی وزارا نے ان کیساتھ علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں جبکہ 10 میں سے 3 اراکین نے ن لیگ کی ٹکٹ پر ان کے ساتھ چلنے پر آمادگی ظاہر کی۔ بتایا جاتا ہے کہ تین اراکین پنجاب اسمبلی نے کسی بھی پیشکش کو مسترد کر دیا جبکہ چار نے اپنی رائے کو محفوظ رکھا۔ لہذا علیم خان کے ساتھ صرف تین ممبران اسمبلی ہونے کا بتایا جا رہا ہے۔
تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ علیم خان کے جہانگیر ترین سے رابطے بحال ہو چکے ہیں لیکن ان کا سب سے زیادہ رابطہ ن لیگ کی قیادت کیساتھ ہے اور انہی رابطوں کی وجہ سے وہ ترین گروپ کیساتھ ملاقات کیلئے پہنچے تھے۔ وہاں جا کر ان کے اندر خواہش پیدا ہوئی کہ کیوں نہ میں اتنے بندے اکھٹے کر لوں کہ خود وزارت اعلیٰ کا امیدوار بن جائوں، لیکن سردار آصف نکئی نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا اور انکے خلاف کھلی کر کھڑے ہو گے، اس لئے علیم خان کوئی فیصلہ نہ کروا سکے۔
وزیراعظم کو یورپی یونین کیخلاف ردعمل نہیں دینا چاہیے تھا
دوسری جانب آصف نکئی اور دیگر ممبران پنجاب اسمبلی نے اکھٹے ہو کر اپنا ایک الگ گروپ بنا لیا ہے جس کے اثرات اب علیم خان اور جہانگیر ترین کے آپسی تعلقات پر بھی ظاہر ہو رہے ہیں اور یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شاید اگلے چند روز میں دونوں دھڑوں کے درمیان ہونے والا رشتہ ختم ہو جائے۔
There were fears that the Tareen& Aleem group would break up