جسٹس بندیال نے ساس کیلئے عدلیہ کی عزت کا جنازہ نکال دیا

چیف جسٹس سپریم کورٹ کی جانب سے اپنی ساس کی آڈیو کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں قائم تین رکنی کمیشن کو کارروائی سے روکنے کا حکم تنقید کی زد میں ہے۔آڈیو لیکس کمیشن کے چیف جسٹس سپریم کورٹ کی جانب سے معطل کیے جانے پر ملک کے قانونی، سیاسی اور صحافتی حلقوں میں بالعموم حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے۔جہاں ایک طرف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کمیشن کو کارروائی سے روکنے کے فیصلے پر آئینی نکات اٹھاتے ہوئے تحفظات کا اظہار کیا ہے وہیں سینئر صحافی مطیع اللہ جان کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آڈیو لیکس بارے قائم کمیشن کو معطل کر کے خود کو مزید متنازع کردیا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے عدلیہ میں کرپشن کی سب سے بڑی وجہ چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیارات ہیں، چیف جسٹس کا ازخود نوٹس لینے، بنچ بنانے اور ججوں کا احتساب کرنے کا اختیار عدلیہ میں کرپشن کی بڑی وجہ ہے۔

سینئر صحافی مطیع اللہ جان نے مزید کہا کہ آڈیوز جس تیزی سے لیک ہورہی تھیں اس کی تحقیقات ہونا ضروری تھی، حکومت نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت چیف جسٹس سے پوچھے بغیر آڈیو لیکس پر کمیشن بنایا، حکومت جانتی تھی کمیشن پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا ردعمل کیا ہوگا، چیف جسٹس کے آڈیو لیکس کمیشن بنچ میں شامل ہونے سے حکومت کا مقصد پورا ہوگیا، حکومت ثابت کرنا چاہتی تھی کہ اعلیٰ ترین عدلیہ کے جج صاحبان پی ٹی آئی سے رابطوں میں ہیں ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کمیشن معطل کر کے خود کو مزید متنازع کردیا ہے۔ مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ عدلیہ میں بھی کرپشن کی سب سے بڑی وجہ چیف جسٹس کے بڑھتے ہوئے صوابدیدی اختیارات ہیں، چیف جسٹس کا ازخود نوٹس لینے، بنچ بنانے اور ججوں کا احتساب کرنے کا اختیار عدلیہ میں کرپشن کی بڑی وجہ ہے، ازخود نوٹس نہ صرف ججوں بلکہ وکیلوں میں بھی کرپشن کی سب سے بڑی وجہ بن گیا ہے۔

دوسری جانب سینئر صحافی حسنات ملک کا کہنا ہے کہ حکومت اور چیف جسٹس کے درمیان عدم اعتماد بہت زیادہ بڑھ چکا ہے، وکلاء تنظیموں کی سیاست کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ سینئر صحافی حسن ایوب خان کے مطابق سپریم کورٹ کے حکم کے بعد اب حکومت کی طرف سے آڈیو لیکس کی تحقیقات کیلئے اعلیٰ اختیاراتی جے آئی ٹی بنائی جائے گی، حکومت نے کمیشن بنا کر چیف جسٹس کو ٹریپ کیا ہے جس میں وہ پھنس گئے ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عدلیہ کو کمزور کیا ہے۔تاہم سینئر صحافی عبدالقیوم صدیقی کا کہنا ہے کہ عدالتوں میں بہت سے کیسوں میں ناانصافیاں ہوتی نظر آتی ہیں، وکلاء کے بڑے بڑے چیمبرز ججوں کے بیٹوں اور دامادوں کو اپنے ساتھ رکھتے ہیں، پابندی ہونی چاہئے کہ ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کے کسی جج کا بیٹا یا داماد وکیل ہے تو وہ اس عدالت میں پریکٹس نہ کرسکے۔

دوسری جانب تجزیہ کاروں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا آڈیو لیکس کمیشن معطل کرنے کا فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے۔محمل سرفراز نے کہا کہ آڈیو لیکس کمیشن معطل کرنے سے لگتا ہے عدلیہ اس کی تحقیقات نہیں چاہتی ہے، آڈیو لیکس کون ریکارڈ اور لیک کرتا ہے اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہئے، چیف جسٹس کو آڈیو لیکس پر ازخود نوٹس لے کر تحقیقات کروانی چاہئے تھی مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا، چیف جسٹس الیکشن ازخود نوٹس کیس میں فل کورٹ بنادیتے تو یہ تنازع ہی پیدا نہیں ہوتا، رانا ثناء اللہ کی بات درست ہے بارز اور قانونی برادری ججوں کی لیک آڈیوز کی تحقیقات کیلئے دباؤ ڈال رہی تھی۔ مظہر عباس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا آڈیو لیکس کمیشن معطل کرنے کا فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے، یہ بات ٹھیک ہے کہ حکومت جیوڈیشل کمیشن بناسکتی ہے مگر اس کیلئے چیف جسٹس سے مشاورت ایک روایت ہے، لیکن یہ بھی روایت رہی ہے کہ کسی مقدمہ میں جج کے مفادات کا تصادم کا معاملہ آجائے تو وہ اس بنچ سے علیحدہ ہوجاتا ہے ۔

  خیال رہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے تحقیقاتی کمیشن کے اجلاس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے اس اقدام پر نہایت اہم آئینی و قانونی سوالات اٹھائے تھے۔ان کے مطابق انکوائری کمیشن کے قیام سے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوئی، کمیشن کو بغیر نوٹس معطل نہیں کیا جاسکتا،قواعد کی رو سے فریقین کو سنے بغیر فیصلہ کرنا غلط ہے،کمیشن کا دائرہ کارکسی کے خلاف کارروائی نہیں بلکہ محض یہ پتہ لگانا تھا کہ آڈیوز اصلی ہیں بھی یا نہیں لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ اس طرح سپریم جوڈیشل کونسل کے حدود میں مداخلت ہوئی ہے ،محض آڈیوز کی بنیاد پر کسی جج کا معاملہ کونسل میں نہیں لے جایا جاسکتا بلکہ اس سے پہلے آڈیو کی تصدیق ضروری ہے اور کمیشن اسی لیے بنایا گیا ہے۔ کسی جج کو کسی مقدمے میں رقم کی پیشکش کا ثبوت سامنے لایا جانا پرائیویسی کے حق کے خلاف نہیں کیونکہ یہ حق نجی امور تک محدود ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے اس موقف کی معقولیت بالکل واضح ہے یہی وجہ ہے کہ ملک کے ممتاز تجزیہ کاروں نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ آڈیو لیکس کمیشن کو معطل کرکے چیف جسٹس نے خود کو مزید متنازع بنالیا ہے۔

واضح رہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے بعض ججوں اور دیگر ممتا ز شخصیات سے متعلق پچھلے چند ہفتوں کے دوران قومی میڈیا اور سوشل میڈیا کے توسط سے سامنے آنے والی آڈیو ریکارڈنگز نے فی الحقیقت اعلیٰ عدلیہ کے اعتبار کو بری طرح مجروح کیا کیونکہ ان سے اہم مقدمات میں سودے بازی اور ساز باز کا تاثر ملتا ہے ۔صورت حال کو جس چیز نے مزید مشتبہ بنادیا وہ یہ ہے کہ متعلقہ شخصیات نے بالعموم ان کلپس کے جعلی ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کیا بلکہ اظہار برہمی بس اس بات پر کیا گیا کہ نجی گفتگو ریکارڈ کرنا پرائیویسی کے حق کے منافی ہے۔ یہ آڈیو ریکارڈنگز سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر نقوی اور سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی،پرویز الٰہی اور وکیل ارشدجوجہ ،پرویز الٰہی اور عابد زبیری ایڈووکیٹ،سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور طارق رحیم، فیصل چوہدری اور فواد چوہدری، جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب اور پی ٹی آئی کے ابوذر چدھڑ،عمران خان اور پی ٹی آئی رہنما مسرت چیمہ،چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی ساس مہ جبین نون اور مسز رافعہ طارق، عبدالقیوم صدیقی اور خواجہ طارق رحیم کی مبینہ گفتگو پر مشتمل ہیں۔ ملک کی وکلاء برادری، سیاسی رہنماؤں اور تجزیہ کاروں کی جانب سے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے پرزور مطالبہ کیا جاتا رہا کہ وہ ان آڈیوز کی فرانزک تحقیقات کرواکے اس بات کا تعین کریں کہ کیا درست ہے اور کیا غلط۔ اگر آڈیوز جعلی ہیں تو انہیں تیار کرنے اور منظر عام پر لانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے اور اگر درست ہیں تو ساز باز میں شامل شخصیات کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔تاہم چیف جسٹس نے واضح طور پر تاثر دیا کہ وہ ایسا کوئی قدم اٹھانے کو تیار نہیں لیکن ملک کی سب سے بڑی عدالت کو مشتبہ بنادینے والا یہ معاملہ اتنا اہم تھا کہ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس فائز عیسیٰ اور اسلام آباد و بلوچستان ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان پر مشتمل کمیشن بنانا ضروری سمجھا جس کا مقصد متعلقہ شخصیات میں سے کسی کیخلاف کارروائی نہیں بلکہ صرف حقائق کا پتہ لگانا اور نتائج قوم کے سامنے لانا تھا۔ یہ وہ حقائق ہیں جن کی روشنی میں ہر شخص بآسانی یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ آڈیو لیکس کمیشن کے حوالے سے چیف جسٹس کا

کھسیانے عمران کو اپنی جھوٹی ٹوئٹ کیوں ڈیلیٹ کرنا پڑی؟

موقف درست ہے یا جسٹس فائز عیسیٰ کا۔

Back to top button