سینیٹ الیکشن: خفیہ ووٹنگ ہونی چاہیے یا نہیں فیصلہ پارلیمنٹ کریگی

سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے کرانے کے صدارتی ریفرنس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ’پارلیمان کا اختیار اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے۔‘
بدھ کو سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔
سماعت کے دوران سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’دو حکومتوں کے درمیان تنازعہ پر ریفرنس دائر کیا جا سکتا ہے۔ عدالت کو جائزہ لینا ہوگا کہ ریفرنس پر فوری جواب دینا لازمی ہے یا نہیں۔ عدالت ریفرنس پر رائے دینے سے اجتناب کرے۔ عدالتی رائے سے سیاسی تنازعہ جنم لے سکتا ہے، احتیاط کی جائے ۔ سپریم کورٹ سے رائے تب لی جاتی ہے جب کوئی اور راستہ نہ ہو۔‘
سماعت کے دوران سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’دو حکومتوں کے درمیان تنازعہ پر ریفرنس دائر کیا جا سکتا ہے۔ عدالت کو جائزہ لینا ہوگا کہ ریفرنس پر فوری جواب دینا لازمی ہے یا نہیں۔ عدالت ریفرنس پر رائے دینے سے اجتناب کرے۔ عدالتی رائے سے سیاسی تنازعہ جنم لے سکتا ہے، احتیاط کی جائے ۔ سپریم کورٹ سے رائے تب لی جاتی ہے جب کوئی اور راستہ نہ ہو۔‘
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ’آج تک دائر ہونے والے تمام ریفرنسز آئینی بحران پر تھے، موجودہ حالات میں کوئی آئینی بحران نہیں ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ بنگلہ دیش کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا پارلیمان کا اختیار ہے۔ ‘چیف جسٹس نے جواب میں کہا کہ ’ریفرنس آچکا ہے، اس پر ہر صورت رائے دیں گے۔ جو سوال ریفرنس میں پوچھے گئے ہیں اس پر ہی جواب دیں گے۔ اگر آئین کہتا ہے خفیہ ووٹنگ ہو گی تو بات ختم ہو جاتی ہے۔ سپریم کورٹ پارلیمان کا متبادل نہیں۔ ریاست کے ہر ادارے نے اپنا کام حدود میں رہ کر کرنا ہے۔ پارلیمان کا اختیار اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے۔‘
وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے دلائل میں بتایا کہ قانون کیا ہونا چاہیئے، 3 سال پرانی ویڈیو اچانک سامنے آگئی، انتخابی عمل سے کرپشن ختم کرنا پارلیمان کا کام ہے۔ چیف جسٹس نے کہا تعین کرنا ہے سینیٹ الیکشن پر آرٹیکل 226 لاگو ہوتا ہے یا نہیں۔ سپریم کورٹ نے سینیٹ اوپن بیلٹ صدارتی ریفرنس پر سماعت 25 فروری تک ملتوی کر دی۔