لاہور میں 92 کروڑ روپے کے چلغوزے چوری ہونے کے انوکھی واردات

لاہور میں 92کروڑ روپے مالیت کے چلغوزوں کی انوکھی چوری کی واردات نے پولیس ذمہ داران کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔6 ماہ گزرنے کے باوجود پولیس حکام 92ٹن چلغوزے چوری کرنے والے ملزمان کا  سراغ لگانے اور چلغوزوں کی ریکوری میں یکسر ناکام ہیں

لاہور کے علاقے شاد باغ میں چلغوزوں کی منفرد چوری بارے متعلقہ تاجروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں چلغوزہ خاص طور پر ژوب، کوہستان، چترال، گلگت، شمالی اور جنوبی وزیرستان کے پہاڑی علاقوں میں پیدا ہوتا ہے۔ تاہم گزشتہ کئی دہائیوں سے لاہور مختلف علاقوں سے لائے گئے چلغوزے کی تجارت کا مرکز بن چکا ہے۔  چلغوزے کی تجارت سے منسلک افراد کے مطابق ستمبر، اکتوبر اور دسمبر میں جنوبی وزیرستان اور دیگر علاقوں سے چلغوزہ مارکیٹ میں آنا شروع ہوتا ہے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں سے تاجر چلغوزے لا کر لاہور کے نجی کولڈ سٹورز میں ذخیرہ کرتے ہیں جہاں سے مناسب وقت اور ماحول کی سازگاری کے بعد انہیں فروخت یا برآمد کے لیے باہر لایا جاتا ہے۔

‘مختلف علاقوں میں چلغوزہ لاہور آنے کے بعد فارسٹ ڈیپارٹمنٹ کو فی کلو 25 روپے ٹیکس ادا کیا جاتا ہے جس کے بعد قانونی طور پر اس کی نقل و حمل کی جاتی ہے۔ لاہور پہنچ کر چلغوزوں کو پراسیس کیا جاتا ہے اور کچھ حصہ برآمد کر دیا جاتا ہے جبکہ باقی مقامی مارکیٹ میں فروخت ہوتا ہے۔’

پاکستان کے مختلف علاقوں سے آنے والا چلغوزہ فوری طور پر فروخت نہیں ہوتا جس کی وجہ سے چلغوزے کو ذخیرہ کرنے کیلئے لاہور کے مختلف علاقوں میں کولڈ سٹورز بنائے گئے ہیں۔ چونکہ چلغوزے کو رکھنے کے لیے ایک مخصوص درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے، اس لئے چلغوزہ لاہور کے نجی کولڈ سٹورز میں رکھا جاتا ہے جہاں ماہانہ 1000 روپے فی بوری کرایہ ادا کیا جاتا ہے۔ جب ماحول سازگار ہو تو یہ چلغوزہ کولڈ سٹورز سے باہر نکال لیا جاتا ہے۔’

حکومت مخالف اتحاد ، اپوزیشن نے PTI سے کون سا بڑا مطالبہ کر دیا ؟

تاجروں کے مطابق اس معاملے میں اس سال ٹوئسٹ اس وقت آیا جب بعض تاجروں نے لاہور کے ایک کولڈ سٹور میں 1400 بوری چلغوزے ذخیرہ کیں جن کی مالیت 92 کروڑ روپے بتائی جا رہی ہے۔ جس پر لاکھوں کا ماہانہ کرایہ ادا کیا جاتا تھا۔ تاجروں کے بقول کولڈ سٹورز میں چلغوزوں کو ذخیرہ کرنے کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ تاجر جب بھی کسی کولڈ سٹور میں چلغوزہ رکھتے ہیں وہاں سے باقاعدہ رسیدیں لیتے ہیں اور رجسٹری دی جاتی ہے۔ اس بار چلغوزہ رکھنے کے بعد زیادہ تر ٹھیکہ دار اور تاجر گھروں کو چلے گئے۔ جب واپس آ کر سب اپنا مال دیکھنے گئے انہیں بتایا گیا کہ آپ کا چلغوزہ محفوظ ہے لیکن ہمیں معلوم ہوا کہ سٹور مالکان نے ہمارا چلغوزہ کہیں فروخت کر دیا ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ سٹور مالکان نے اپنے ہی ایک منشی کو مدعی بنا کر تھانہ شادباغ میں اپنے ہی ایک ملازم کے خلاف چلغوزہ چوری کرنے کا مقدمہ درج کرا رکھا ہے۔ لٹنے والے تاجروں کے مطابق سٹور مالکان نے پہلے چلغوزوں کی چوری چھپانے کیلئے سٹور میں آگ لگانے کا ڈرامہ رچایا لیکن یہ حکمت عملی کارگر نہ ہونے کے بعد اب چوری کا مقدمہ سامنے آ گیا ہے۔’

متاثرہ تاجروں کے بقول گزشتہ 6 ماہ سے سٹور مالکان مختلف حیلے بہانے بنارہے ہیں تاہم ابھی تک انھیں 1400 بوریوں پر مشتمل کروڑوں کی مالیت کا چلغوزہ واپس نہیں ملا۔ تاجروں کے مطابق ‘جس کولڈ سٹور میں ہم چلغوزہ رکھتے ہیں اس کا مالک اس کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس کی رسید دی جاتی ہے۔ جس پر تاریخ اور تمام تفصیلات درج ہوتی ہیں۔ سٹور میں کیمرے لگے ہوتے ہیں۔ 20 سے 25 ملازم کام کرتے ہیں اور گارڈز سمیت پورا مانیٹرنگ کا نظام ہوتا ہے۔ تاہم سٹور مالکان کی طرف سے تاجروں کو کروڑوں روپے مالیت کا ان کا چلغوزہ واپس کرنے کی بجائے سٹور مالکان آئے روز نت نئے بہانے سے خود کو بچانے کیلئے تگ و دو کرتے نظر آتے ہیں۔ تاجروں کے بقول  چلغوزے کی چوری کے مقدمات درج ہونے کے باوجود پولیس کی طرف سے تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔ کروڑوں روپے کے چلغوزوں کی چوری سے متاثرہ تاجر سڑکوں پر رل رہے ہیں جبکہ سٹور مالکان اپنے ٹھکانوں پر مزے کرتے نظر آتے ہیں۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ اگر پولیس نے اب بھی ہماری ریکوری نہ کروائی تو وہ اہل خانہ کے ہمراہ جلد  ایوان وزیراعلیٰ کے سامنے دھرنا دیں گے۔

Back to top button