اقتدار سنبھالنے سے پہلے ٹرمپ نے کونسے خطرناک عزائم ظاہر کر دئیے؟
دوسری مرتبہ امریکی صدر منتخب ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری کو اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی جن خطرناک ترین عزائم کا اظہار کر رہے ہیں ان سے دنیا کے کئی ممالک شدید پریشانی کا شکار ہو گئے ہیں۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سینیئر صحافی نصرت جاوید کہتے ہیں کہ باقاعدہ اقتدار سنبھالنے سے قبل ہی نو منتخب صدر واضح طور پر دو ’’خودمختار ممالک‘‘ کو ہڑپ کرنے کا ارادہ ظاہر کر رہے ہیں جن میں ہمسایہ ملک کینیڈا بھی شامل ہے۔ کینیڈا پر 25 فیصد ٹیکس نافذ کرنے کی دھمکی کے بعد وزیراعظم ٹروڈر نے استعفی دے دیا ہے تا کہ اپنے ملک کو نو منتخب امریکی صدر کے عتاب سے بچایا جا سکے۔ ٹرمپ کا قریب ترین دوست اور ایکس پلیٹ فارم کا مالک ایلان مسک مسلسل پیغامات دیتے ہوئے برطانوی وزیراعظم کا تختہ الٹنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ جرمنی میں اگلے مہینے ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں ایلان مسک انتہائی نسل پرست اور تارکین وطن کی جماعت اے ایف ڈی کو برسراقتدار دیکھنا چاہتا ہے۔ برطانیہ اور جرمنی کے عوام حیران ہیں کہ نیٹو کے اہم ممالک ہوتے ہوئے بھی وہ نو منتخب امریکی صدر کے انتہائی قریبی دوست کے عتاب کا نشانہ کیوں بنے ہوئے ہیں۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ ’’قوم پرستی‘‘ ختم کرنے کا جو خواب کبھی کمیونسٹ دیکھا کرتے ہیں نجانے کیوں اب دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کی حتمی علامتیں یعنی ایلان مسک اور ٹرمپ دیکھنا شروع ہوگئے ہیں۔ ان کے خواب کیا گل کھلائیں گے؟ اس کا جواب سوچتے ہوئے دل گھبراجاتا ہے۔
وہ بتاتےنہیں کہ 1970ء کی دہائی میں جب میں جوان ہورہا تھا تو سوشلزم کے بہت چرچے تھے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہ ایسا نظام ہوگا جہاں امیر وغریب کا فرق مٹ جائے گا۔ دنیا بھر کے انسان جب مساوی سطح تک پہنچ جائیں گے تو بالآخر قوم پرستی پر مبنی ممالک کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ گویا دنیا گویا ایک ہی ملک بن جائے گی جہاں مقامی آبادیاں چھوٹے چھوٹے گروہوں تک محدود ہو جانے والی روزمرہّ زندگی کے بارے میں فیصلے کیا کریں گی۔ اس دور کو کمیونزم کہا جائے گا۔
نصرت جاوید کہتے ہیں لیکن ’قوم پرستی‘ پر مبنی ریاستی نظام کے مخالف ہوتے ہوئے بھی روس اور چین 1962ء میں ’’سوشلسٹ‘‘ ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے دشمن ہونا شروع ہوگئے تھے۔ میں جوان ہوا تو مائوزے تنگ کے چین نے سوویت یونین پر کارل مارکس کے بتائے فلسفے سے انحراف کرنے کا الزام عائد کیا۔ اس کے بعد روس اور چین دو متحارب فرقوں کی طرح ’’سوشلزم‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے ایک دوسرے کو اس فلسفے سے روگردانی کے مرتکب ٹھہراتے رہے۔ 1970ء کی دہائی میں ہی خود کو سوشلزم کا محافظ کہلاتا چین سرمایہ دارانہ نظام کی حتمی علامت یعنی امریکہ کے قریب تر آنا شروع ہوگیا۔ ان کی دوستی کا آغاز ہنری کسنجر کے اس دورہ چین سے ہوا جو اس نے خفیہ طورپر بذریعہ پاکستان کیا تھا۔ بعدازاں مائوزے تنگ بھی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کے بعد ڈنگ سیائوپنگ آئے۔ انہوں نے امریکہ کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو چین میں سرمایہ کاری کے وسیع تر مواقع فراہم کئے۔ ہزار ہا چینی طلباء کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے امریکہ بھیجا۔
سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ اب 2025 میں نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ چین امریکہ کی واحد سپر پاور کو اپنی خوش حالی، بے پناہ تعلیم یافتہ افراد اور دنیا بھر کو درکار روزمرہّ استعمال کی اشیا بڑے۔پیمانے پر تیار کر کے للکار رہا ہے۔ عالمی تجارت میں تقریباََ اجارہ دار کا رتبہ اختیار کرنے کے بعد اب چین دفاع اور کمپیوٹر کے میدان میں بھی امریکہ کو پچھاڑنے کی تیاری کررہا ہے۔ چینی قوم پرستی کے جذبے کے بغیر وہ یہ مقام حاصل ہی نہیں کرسکتا تھا۔ لہٰذا چین کو دورِ حاضر میں قابل رشک مقام سوشلزم کی وجہ سے نہیں بلکہ قوم پرستی کے جذبے کی وجہ سے میسر ہوا ہے۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ اب امریکہ صرف نام کی ہی سپر پاور رہ گیا ہے۔ گزشتہ برس وہاں صدارتی انتخاب کے نتیجے میں ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھر 20 جنوری 2025ء کو چار سالہ عہدِ صدارت کے لئے حلف اٹھائیں گے۔ لیکن موصوف کے حلف اٹھانے سے قبل ہی ٹرمپ اور اس کے حامیوں نے ’’سامراجی‘‘ زبان اور ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کردئے ہیں۔
نومبر میں امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد دسمبر کے پہلے ہفتے میں امریکہ کے قریب ترین ہمسائے کینیڈا کا وزیر اعظم ٹروڈو ٹرمپ کو مبارک باد دینے اس کے فلوریڈا والے گھر آیا۔ کھانے کے بعد ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا کے ایک پلیٹ فارم پر پیغامات کی بھرمار کردی۔ انہوں نے ٹروڈو کو ’’وزیر اعظم‘‘ پکارنے کی بجائے ’’ایک عظیم سٹیٹ یعنی صوبے کا گورنر‘‘ کہا جس سے مل کر اسے ’’خوشی‘‘ ہوئی۔ بات یہاں ختم نہ ہوئی۔ایک خودمختار ملک کے وزیر اعظم کو ’’گورنر‘‘ پکارنے کی وجہ سے کینیڈا کے پریشان افراد کے ذہنوں میں جو سوالات اٹھے انہیں رعونت سے نظرانداز کرتے ہوئے ٹرمپ نے اصرار کیا کہ کینیڈا کو اپنی خودمختار پہچان بھول کو امریکہ کی 51ویں ریاست بن جانا چاہیے۔
نصرت جاوید کہتے ہیں بقول ٹرمپ ایسا کرنے سے کینیڈا کو اپنی برآمدات پر لگے ٹیکس سے نجات مل جائے گی اور اسے ملکی دفاع پر بھی کوئی رقم نہیں لگانا پڑے گی۔ یوں کینیڈا امریکہ کا ایک انتہائی مالدار اور خوشحال صوبہ بن جائے گا۔ ٹروڈو کو ٹرمپ کے ان اعلانات کی وجہ سے استعفیٰ دینا پڑ گیا۔ اس کی مخالفت اور عدم مقبولیت کی دیگر کئی وجوہات بھی ہیں۔ مگر ٹرمپ کے پیغامات نے محاورے والے تابوت میں آخری کیل کا کام کیا۔
عمران خان کے قریبی ساتھی ایک دوسرے پر حملے کیوں کر رہے ہیں؟
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ کینیڈا امریکہ کا قریب ترین ہمسایہ ہے۔ اسکے علاوہ گرین لینڈ نام کا بھی ایک ملک ہے۔ یہ امریکہ کا سمندر پار کرنے کے بعد یورپ میں ڈنمارک کے قریب واقعہ ایک جزیرہ ہے جو ڈنمارک کی ’’نگرانی‘‘ میں چلتا ہے۔ وسیع وعریض رقبے کے اس جزیرے میں نایاب مٹی نامی معدنیات کے بے شمار ذخائر ہیں۔ مٹی کی یہ قسم موبائل فونز، کمپیوٹر اور بغیر پٹرول کی چلائی کاروں کے لئے درکار بیٹری کی بنیادی ضرورت ہے۔ اب ٹرمپ لگی لپٹی بغیر اس خواہش کا اظہار کررہا ہے کہ گرین لینڈ بھی کینیڈا کی طرح امریکہ کا حصہ بن جائے۔
لہذا سوال یہ ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد اگر ٹرمپ نے اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے عملی اقدامات شروع کر دیے تو پھر کیا ہو گا۔