جسٹس فائز عیسی نے اپنے مختصر دور میں کیا کھویا اور کیا پایا؟
بطور چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کا عدالتی اور سیایسی تنازعات سے بھرپور ایک برس پر محیط دور ہنگامہ خیز رہا جس کے دوران وہ عمران خان کی تحریک انصاف کے نشانے پر رہنے کے باوجود ڈٹے رہے۔
انہوں نے دیگر ججز کی طرح کوئی دباؤ نہیں لیا اور ہر طرح کے منفی پراپیگنڈے کے باوجود آئین اور قانون کے مطابق ڈٹ کر فیصلے دیتے رہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کے دور کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے مختصر عرصے کے دوران کئی ایسے انتظامی اقدامات کیے اور دلیرانہ فیصلے دیے جن کے اثرات لمبے عرصے تک محسوس کیے جاتے رہیں گے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی پہلے چیف جسٹس تھے جنہوں نے اپنے اثاثوں کی مکمل تفصیلات سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کیں، انہوں نے 2024 میں عہدہ سنبھالنے کے فوری بعد بظاہر ناممکن نظر آنے والے انتخابات کا انعقاد کروایا، انہوں نے پارلیمان کی حاکمیت کے اصول کو نہ صرف مانا بلکہ اس پر عمل درآمد بھی کر کے دکھایا، انہوں نے نہ صرف جنرل فیض حمید کی زیادتی کا شکار ہونے والے جسٹس شوکت صدیقی کو انصاف دیا بلکہ فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی سکینڈل کی بنیاد پر کارروائی بھی کی۔ ان کا ایک اور بڑا کارنامہ ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید کی پھانسی کو باقاعدہ طور پر جوڈیشل مرڈر قرار دینا تھا۔
اس کے علاوہ فائز عیسی نے اپنی ذاتی زمین بھی بلوچستان حکومت کو دے ڈالی تاکہ اس سے رفاہی کاموں کے لیے استعمال کیا جا سکے لیکن اس سب کے باوجود وہ چیف جسٹس بننے سے قبل اور بعد میں تنازعات کی زد میں رہے۔
چیف جسٹس تعینات ہونے سے قبل ان کے اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ساتھ تعلقات بے حد خراب تھے، حتٰی کہ اس وقت پوری سپریم کورٹ تقسیم ہوچکی تھی۔ اب ریٹائرمنٹ سے قبل ان کے جسٹس منصور علی شاہ کے ساتھ تعلقات خراب ہو چکے ہیں۔ فائز عیسٰی کے کردار کا فیصلہ تو تاریخ کرے گی لیکن بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے لے کر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بننے تک اگر دیکھا جائے تو ان کی ذات سے بہت سارے تنازعات جڑے رہے۔ تاہم، وہ اکثر تنازعات میں سرخرو ہوئے۔
جسٹس فائز عیسٰی نے جنرل مشرف کی جانب سے 3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف بطور احتجاج پی سی او پر حلف لینے والے ججز کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر دیا تھا۔
جب جولائی 2009 میں سپریم کورٹ نے ایمرجنسی کے نفاذ کو خلاف آئین قرار دیا تو بلوچستان ہائی کورٹ کے تمام جج صاحبان مستعفی ہوگئے تھے اور بلوچستان ہائی کورٹ میں ایک آئینی خلا پیدا ہو گیا تھا۔ تب فائز عیسٰی کو براہ راست چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ تعینات کر دیا گیا تھا۔ بعد ازاں ان کی مشاورت سے بلوچستان ہائیکورٹ میں ججوں کا تقرر عمل میں آیا تھا۔
جسٹس فائز عیسٰی کے بطور جج فیصلوں پر تنازعات بھی کھڑے ہوتے رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک فیصلہ انہوں نے اکتوبر 2018 میں نیب کی جانب سے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس دوبارہ کھولنے سے متعلق اپیل مسترد کر کے دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے اس بینچ کی سربراہی جسٹس قاضی فائز عیسٰی کررہے تھے، نیب اس بینچ سے اپیل کررہا تھا کہ 18 سال پرانا نیب ریفرنس دوبارہ سے کھولنے کی اجازت دی جائے۔ جس پر فائز عیسٰی نے نیب کی اپیل یہ کہہ کر مسترد کر دی تھی کہ اس کے پاس یہ ریفرنس دوبارہ سے کھولنے کے لیے کوئی مضبوط جواز نہیں۔ اس معاملے پر تحریک انصاف کی جانب سے ان کو سوشل میڈیا پر ٹرول بھی کیا گیا تھا۔
تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے فیض آباد پل پر دیے گئے دھرنے کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے پر بھی کچھ عناصر کی جانب سے تنازعہ کھڑا کیا گیا تھا۔ فیصلے میں فائز عیسٰی نے سیکیورٹی ایجنسیوں کے کردار پر تنقید کی تھی اور میڈیا پر لگائی گئی پابندیوں کو بھی اظہار رائے کی آزادیوں کے خلاف قرار دیا تھا۔
فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے 3 ماہ بعد وزیراعظم عمران خان کے ایماء پر صدر عارف علوی کی جانب سے جسٹس فائز عیسٰی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا تھا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے اپنی اہلیہ کے نام جائیدادیں اپنے ڈیکلئیر کر دہ اثاثوں میں ظاہر نہیں کیں۔ ان کے خلاف یہ صدارتی ریفرنس جون 2020 میں ختم ہو گیا تھا اور ان پر الزامات غلط قرار دے دیے گئے تھے۔ اس کے بعد سال 2022 میں تب کے وزیراعظم عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیجنا ان کی غلطی تھی۔
جسٹس فائز عیسٰی بطور چیف جسٹس تعیناتی سے پہلے تقریباً 4 ماہ سماعت کرنے والے بینچوں کا حصہ نہیں بنے۔ 13 اپریل 2023 سے انہوں نے خود کو چیمبر ورک تک محدود کر لیا تھا کیونکہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر سپریم کورٹ کے حکم امتناع کے بعد انہوں نے تحریری طور پر یہ فیصلہ کیا تھا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اس مقدمے کا فیصلہ دیں، بصورت دیگر تمام بینچوں کی تشکیل غیر قانونی ہے۔ لیکن سابق رجسٹرار سپریم کورٹ عشرت علی کی جانب سے ایک سرکلر جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ وہ فیصلہ غیرمؤثر ہے۔
فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے معاملے پر جب جسٹس عمر عطا بندیال نے 9 رکنی بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو شامل کیا تو انہوں نے کہا کہ پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے حوالے سے کوئی فیصلہ کیا جائے، بصورت دیگر وہ اس بینچ کی قانونی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے۔
اس معاملے میں جسٹس فائز عیسٰی جب بینچ میں آئے تو انہوں نے جسٹس بندیال پر تنقید کی اور کہا کہ وہ اس معاملے میں سماعت سے معذرت نہیں کررہے لیکن وہ اس بینچ کی تشکیل کو غیرآئینی سمجھتے ہیں۔
اگر شدت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو جس معاملے کی وجہ سے سب سے زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا وہ ان کا 13 جنوری 2024 کا فیصلہ تھا جس میں انہوں نے پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلوں کو برقرار رکھتے ہوئے تحریک انصاف کے انتخابی نشان ’بلے‘ کے لیے دائر درخواستیں مسترد کردی تھیں۔ لیکن اس سے پہکے تحریک انصاف چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم بینچ کے سامنے یہ ثابت کرنے میں ناکام رہی کہ اس نے انٹراپارٹی انتخابات کرائے ہیں، جس بنا پر انہیں بلے کا انتخابی نشان نہیں دیا گیا۔
ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اس فیصلے سے تحریک انصاف کو الیکشن 2024 میں نقصان پہنچا اور وہ مخصوص نشستیں حاصل کرنے میں تاحال ناکام ہے۔ تحریک انصاف کے سپورٹرز نے اس معاملے پر قاضی فائز کو شدید ٹرولنگ کا نشانہ بنایا تھا۔
بطور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اہم فیصلے
انتخابی نشان والے معاملے کا ہی ایک اہم حصہ مخصوص نشستوں کا مقدمہ تھا جس میں چیف جسٹس اور 4 دیگر جج صاحبان کے فیصلے کے برخلاف 8 جج صاحبان نے تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ دیا۔ لیکن اس فیصلے پر تاحال عمل درآمد نہیں ہو پایا اور 22 اکتوبر کو چیف جسٹس نے اپنا اقلیتی تفصیلی فیصلہ بھی جاری کردیا جس میں انہوں نے اکثریتی 8 ججز کے فیصلے کو آئین کے منافی قرار دیا۔ فروری 2024 میں انتخابات کے بعد کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ نے الزام عائد کیا تھا کہ انہیں دھاندلی کے احکامات جاری کیے گئے تھے، دھاندلی میں چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر ملوث ہیں۔
چیف جسٹس نے ان الزامات کی تردید کی اور بعد میں کمشنر راولپنڈی نے بھی اپنے الزامات واپس لے لیے۔ قاضی فائز عیسٰی کا دور ججوں کے درمیان کشمکش کا دور بھی تھا۔ ان کے دور میں 3 ججز کے خلاف ریفرنسز پر سپریم جوڈیشل کونسل نے سماعت کی جس میں جسٹس سردار طارق مسعود کے خلاف ریفرنس خارج کردیا گیا جبکہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف مستعفی ہونے کے باوجود کاروائی جاری رکھی گئی اور انہیں برطرف کیا گیا۔ اس کے علاوہ مظاہر کے ایک اور قریبی ساتھی جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی اپنے خلاف کرپشن کا ریفرنس دائر ہونے سے پہلے ہی استعفٰی دے دیا تھا۔
سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس شوکت عزیز کا معاملہ بھی قابل ذکر ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کو ختم کیا اور انہیں بطور ریٹائرڈ ہائی کورٹ جج بحال کیا۔ 17 ستمبر 2023 کو چیف جسٹس کا منصب سنبھالنے کے بعد جسٹس فائز عیسٰی نے عام نوعیت کے کئی فیصلے کیے جن میں زیادہ کا تعلق خواتین کے حق وراثت سے تھا۔
کئی ایسے مقدمات میں انہوں نے بیوہ اور یتیم خواتین کو جائیداد میں حصہ نہ دینے اور مقدمے بازی کو طول دینے پر ان کے رشتے داروں کو جرمانے کیے لیکن یہ کیسز اس نوعیت کے نہیں ہوتے کہ مشہور ہو سکیں۔
یاد رہے کہ پاکستان میں مشہور ہونے والے زیادہ تر فیصلے سیاسی جماعتوں سے متعلق ہوتے ہیں۔