آرمی چیف کی مدت میں اضافے کے بعد سینئیر افسران کیا چاہتے ہیں؟
آرمی ایکٹ میں حالیہ ترمیم کے ذریعے آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے کے بعد سابق فوجی افسران کا کہنا ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف کی طرح فوج کے دیگر سینیئر افسران کی ریٹائرمنٹ کی عمر بھی بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آرمی چیف اور ان کے سینیئر ساتھیوں میں عمر اور مدتِ ملازمت کا فرق ختم کرنے کے لیے کم سے کم تھری اسٹار اور ٹو اسٹار جرنیلوں کی عمر کی حد کو بھی ریلیکس کرنا ہوگا۔
فوجی سربراہ کی مدتِ ملازمت میں اضافے کے فوج پر اثرات کے حوالے سے ریٹائرڈ فوجی افسران کا کہنا ہے کہ اب فوج کے اندررونی سیٹ اپ میں ایڈجسٹمنٹ تو کرنا پڑے گی کیونکہ آرمی چیف کی ملازمت میں اضافے کے بعد ان کے نیچے ٹو سٹار اور تھری اسٹار جرنیلوں کی مدتِ ملازمت کے لیے بھی بڑھانا ہو گی تاکہ کسی کے دال میں اپنے ساتھ زیادتی ہونے کا خیال نہ ابھرے۔
یاد رہے کہ حکومت نے پارلیمان کی منظوری کے بعد بری فوج، بحریہ اور فضائیہ کے سربراہان کی مدت ملازمت تین برس سے بڑھا کر پانچ برس کر دی ہے، اس کے سبب ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے کہ اس اقدام کی اچانک ضرورت کیوں پڑی اور اس تبدیلی کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ پارلیمان سے منظور شدہ ترامیم حکومت کو یہ اجازت بھی دیتی ہیں کہ وہ ان اداروں کے سربراہوں کی مدتِ ملازمت میں مزید پانچ برس کی توسیع کر سکے۔
آرمی ایکٹ میں ترمیم سے پہلے پاکستانی فوج میں کسی بھی جنرل کی ریٹائرمنٹ کی عمر 64 برس تک رکھی گئی تھی۔ لیکن نئی ترمیم کے بعد اس اصول کا اطلاق فوج کے سربراہ پر نہیں ہو گا۔ اس سے قبل آرمی ایکٹ کے تحت آرمی چیف سمیت تمام سروسز چیفس کی مدت ملازمت تین سال مقرر تھی اور ایگزیکٹیو کے اختیارات کے تحت آرمی چیف کو تین سال کی ایکسٹینشن دی جاتی رہی تھی۔
یاد رہے کہ امریکہ اور برطانیہ میں فوجی سربراہان کی مدتِ ملازمت چار برس ہے۔
دوسری جانب انڈیا میں فوج کا سربراہ تین برس کے لیے تعینات کیا جاتا ہے اور یہی فارمولا پاکستان میں بھی نافذ تھا۔ پاکستان میں بھی دھائیوں سے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت چار برس ہی ہوتی تھی۔ سابق سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) خالد نعیم لودھی کے مطابق ’ایوب خان کے زمانے میں فوجی سربراہ کی مدتِ ملازمت چار سال بھی رہی ہے۔‘
آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں فوج پر اثرات کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے سابق آرمی چیف آصف نواز کے بھائی اور کئی کتابوں کے مصنف شجاع نواز کہتے ہیں کہ وہ اسے ایک اچھا قدم سمجھتے ہیں۔
ان کے مطابق اصولی طور پر سروس چیفس کی مدتِ ملازمت میں اضافہ ہر سروس کے انتظامی معاملات اور ترقی کے لیے فائدہ مند ہے۔ پچھلی عمر اور مدت ملازمت کی حد پُرانی روایت تھی اور اس سے کسی بھی چیف کی منصوبہ بندی اور اس پر عملدرآمد کی پالیسیاں متاثر ہوتی تھیں۔
سابق سیکریٹری دفاع خالد نعیم لودھی بھی شجاع نواز سے صرف ’جزوی‘ طور پر اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ’پاکستانی فوج میں جو لیفٹننٹ جرنلز ہوتے ہیں ان کی تعیناتیاں ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں انھیں معلوم ہوتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے اور آگے کیا ہونا ہے۔ انکے مطانق کسی آرمی چیف کے آنے سے پالیسی اچانک تبدیل نہیں ہوتی، ایک تسلسل ہوتا ہے۔ آپ کا دشمن وہی ہے، دشمن کے طور طریقے وہی ہیں۔‘ لیکن انھیں یہ بھی خدشہ ہے کہ فوجی سربراہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے فوج میں ’سیاست‘ پروان چڑھنے لگے گی۔ خالد لودھی کا کہنا ہے کہ’فوج میں بطور ادارہ سیاست آ جائے گی۔ جب آپ مدتِ ملازمت بڑھائیں گے تو دیگر امیدوار شاید اسے حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں ماریں۔ اس لحاظ سے یہ اقدام شاید فوج کے لیے بطور ادارہ اچھا نہ ہو۔
کیا عمران کی رہائی کےلیے ٹرمپ پاکستان کے قرضے بند کروا دے گا ؟
یاد رہے کہ پاکستانی سیاست میں فوج کی مداخلت کی ایک تاریخ ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی آزادی کے بعد فوجی سربراہوں نے تقریباً آدھے عرصے کے دوران ملک پر حکومت کی ہے۔ مدتِ ملازمت کے سیاسی پہلو پر تبصرہ کرتے ہوئے لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ خالد نعیم لودھی کہتے ہیں کہ ’اب ہر حکومت کو ایک ہی آرمی چیف مقرر کرنا ہو گا۔ ہر بار جب بھی فوج کا سربراہ تعینات کرنا ہوتا ہے تو فوج اور سیاسی حکومت کے درمیان ایک تناؤ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس اقدام کی اچھائی یہ ہے کہ اب دو دفعہ نہیں بلکہ ایک ہی مرتبہ تناؤ پیدا ہو گا اور پھر شاید استحکام آ جائے گا۔‘
پاکستانی وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے بھی یہی موف اپنایا ہے کہ فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نومبر 2027 تک اپنے عہدے پر موجود رہیں گے جس سے ’نظام کو تسلسل ملے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ایکسٹینشن والا سلسلہ ہم نے ختم کر دیا ہے۔