بلوچستان میں فوجی آپریشن کی اصل حقیقت کیا ہے؟
معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ پاکستانی ریاست اور پنجاب، دونوں ہی بلوچستان میں فوجی آپریشن کے بارے میں کنفیوزڈ ہیں، ہر طرف فوجی آپریشن کا شور ہے، لیکن جب ہم نے خود بلوچستان جا کر دیکھا تو پتہ چلا کہ ایسا کوئی آپریشن تو ہو ہی نہیں رہا۔ ہمارا دایاں اور بایاں بازو دونوں بلوچوں کے استحصال کو ناجائز تصور کرتے ہیں، نون لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف تینوں مشرقی پاکستان کے فوجی آپریشن کے بعد کسی نئے آپریشن کے حق میں نہیں۔ ایسے میں لازم ہو گیا ہے کہ بلوچستان کو ملک کا ترجیحی مسئلہ قرار دیتے ہوئے ریاست اور اہل سیاست سرجوڑ کر بیٹھیں اور مسئلے کا حل نکالیں۔ مسلسل بہتا ہوا خون اور دونوں سائیڈ کے مظلوموں کی آہیں ریاست کو متنبہ کر رہی ہیں کہ مذید دیر ہوئی تو اندھیر ہو جائے گا۔
اپنی تازہ تحریر میں سہیل وڑائچ حال ہی میں وزیراعلی بلوچستان سرفراز بگٹی کے ساتھ ہونے والے ایک مکالمے کی روداد بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے وہم تھا کہ میری راے بڑی مدلل، متوازن، معتدل اور معقول ہوتی ہے مگر سرفراز بگٹی سے بلوچستان کے معاملات پر گرما گرم بحث ہوئی تو انہوں نے میری ہر دلیل کو رد کر دیا۔ انہوں نے ہر تاریخی واقعہ غلط قرار دیا اور حتیٰ کہ میرے تجزیے سے بھی شدید اختلاف کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ انہیں میری ہر بات سے اختلاف تھا۔ کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر دھماکے والے دن وزیر اعلیٰ بگٹی اور ان کے وزراء سے گفتگو کا موضوع بلوچستان میں نہ تھمنے والی دہشت گردی تھا۔
سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ ہماری گفتگو کا آغاز میرے اس سوال سے ہوا کہ بلوچستان میں 75سال سے اوپر تلے فوجی آپریشن ہو رہے ہیں مگر دہشت گردی کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے، ایسا کیوں؟ میرا یہ سوال کرنا تھا کہ سرفراز بگٹی فوراً بولے کہ آپریشن کہاں ہورہا ہے، بگٹی کے مطابق ہم تو کہتے ہیں کہ آپریشن کریں مگر کرنے والے تیار نہیں۔ میں نے کہا کہ بلوچستان میں روزانہ چن چن کر پنجابی اور فوجی مارے جارہے ہیں، روزانہ خبریں آرہی ہیں کہ آپریشن ہو رہا ہے تو کیا یہ خون خرابہ اس آپریشن کا ردعمل نہیں ہے۔ اس پر سرفراز بگٹی نے کہا کہ یہاں کوئی آپریشن نہیں ہو رہا اور اسی لیے تو دہشت گردی بڑھ رہی ہے۔ اگر موثر آپریشن ہو تو دہشت گردی کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔
سہیل وڑائچ کے بقول میں نے سوال کیا کہ اگر بلوچستان میں آپریشن نہیں ہو رہا تو پھر ہماری فورسز یہاں کیا کررہی ہیں۔؟ سرفراز بگٹی نے جواب دیا کہ آپ پنجابی اور فوج دونوں بلوچستان کے مسئلے پر کنفیوزڈ ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ بلوچ عسکریت پسند تو پنجابیوں کو استحصالی اور ظالم کہتے ہیں اور پھر اس غلط الزام پر ابہیں چن چن کر مار بھی رہے ہیں لیکن آپ لوگ جو ان عسکریت پسندوں کے خلاف فوج کے ساتھی ہیں، وہ بھی ہمیں کنفیوزڈ کہہ رہے ہیں، گویا بلوچستان کے دونوں فریق ہم پر اعتماد نہیں کرتے۔ جواب میں وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ مجھے وزیر اعظم نے بلاکر کہا کہ بلوچوں مذاکرات کا راستہ کھولیں، میں انہیں جواب دیا کہ کس بلوچ سے مذاکرات کریں، ڈاکٹر مالک سے؟ وہ تو کل بھی میرے پاس آئے ہوئے تھے،
سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ اگر اپ دہشت گردوں سے مذاکرات کی بات کر رہے ہیں تو ان کا پہلا مطالبہ ہے کہ بلوچستان کو آزاد کرو، تو کیا ہم ان کا مطالبہ مان لیں؟ کیا ہم دوبارہ سے پاکستان توڑ دیں، میں نے کہا کہ ہمارے ہاں یہ احساس جرم پایا جاتا ہے کہ ہم 75 سال سے آپریشن کر رہے ہیں، ہم نے زور زبردستی بلوچستان کو پاکستان میں شامل کیا جس کی وجہ سے یہ سارا مسئلہ شروع ہوا۔ بگٹی نے کہا کہ آپ لوگوں نے تاریخ بھی وہی پڑھی ہے جو قوم پرستوں نے لکھی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بلوچستان تو 1970ء کے بعد صوبہ بنا ہے، اس سے پہلے بلوچستان کے کئی حصے تھے، ایک ریاست قلات تھی اور چند چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں، دوسری طرف برطانوی حکومت کے زیرنگیں برٹش ایریا تھا۔ ریاست قلات کے فرمانروا میر احمد یار خان نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے کہ ’’میں نے ساتھیوں سے صلاح مشورے کے بعد پاکستان سے انضمام کا فیصلہ کیا، میں ساتھیوں کو بھی ساتھ کراچی لے جانا چاہتا تھا لیکن ذرائع رسل و رسائل میں کمی کی وجہ سے ایسا نہ کر سکا جس پر بعض ساتھیوں کو اختلاف ہوا۔‘‘
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ میں نے فوراً تاریخ کا حوالہ دیا کہ نواب کے بھائی عبدالکریم بلوچ نے تو اسی وقت علم بغاوت بلند کردیا تھا اور اس کے خلاف پہلا فوجی آپریشن ہوا تھا۔ سرفراز بگٹی نے کہا کہ عبدالکریم بلوچ کی نام نہاد بغاوت کے خلاف پولیس آپریشن ہوا تھا ،یہ بہت چھوٹا سا واقعہ تھا جسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ عبدالکریم بلوچ کی اہلیہ افغان تھی اس لیے عبدالکریم بلوچ اپنی اہلیہ کے ملک جا کر آباد ہوگیا اس کے جانے کے بعد نہ کوئی آزادی کی تحریک تھی اور نہ کوئی اُس کا کوئی سپاہی۔ میں کہاں ان باتوں کو ماننے والا تھا جو دہائیوں سے میری سوچ کا حصہ تھیں۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ میں نے پٹاری کھول کر کہا معروف بلوچ قوم پرست سردار نوروز خان کے ساتھ ریاست کی جانب سے دھوکہ کیا گیا اور انہیں صلح کے بہانے قرآن پر کیے گے وعدے کے بعد پہاڑوں سے نیچے بلا کر مار دیا گیا، میرا موقف تھا کہ اس واقعے نے بلوچستان کی تلخیوں میں اضافہ کیا۔ لیکن سرفراز بگٹی نے پھر سے میری تاریخ کو جھٹلایا اور کہا کہ نوروز خان کو پہاڑوں سے نیچے فوج نہیں لائی تھی بلکہ انہیں نواب نوروز خان کا اپنا داماد بلانے گیا تھا، نوروز خان نے اپنے داماد کو صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے تم پر بھروسہ نہیں لہازا میں نیچے نہیں اتروں گا۔ تم مجھے دھوکہ دو گے، البتہ مجھے عطاء اللہ مینگل پر یقین ہے، چنانچہ ان کا داماد عطاءاللہ مینگل کو ساتھ لے گیا، نوروز خان مینگل کی یقین دہانی پر نیچے اترے تھے جس کے بعد انہیں اور ان کے بیٹوں کو مار دیا گیا تھا۔ سرفراز بگٹی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ تاریخ سے عطاء اللہ مینگل والا حصہ غائب کیوں ہے؟
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ میں کہاں رکنے والا تھا، میں نے وزیر اعلیٰ پر سیدھا الزام عائد کر دیا کہ آپ تو فوج کے ایجنٹ مشہور ہیں، اسی وجہ سے آپ کو بڑے بڑے عہدے ملے ہیں۔ سرفراز بگٹی نے ناراض ہوئے بغیر کہا کہ ہم فوج سے دن میں ملتے ہیں اور نام نہاد قوم پرست رات کے اندھیرے میں انہیں ملتے ہیں، اگر یہ اتنے ہی فوج کے خلاف ہوتے تو آمر جنرل ضیاء کے ساتھ صلح کرکے افغانستان سے واپس پاکستان کیوں آتے؟جنرل ضیاء سے کوئٹہ میں زمین لیکر وہاں مقیم کیوں ہوتے؟ یہ سردار بڑی دیر تک فوج کےساتھ کھیل کھیلتے رہے، ایک سردار پہاڑوں پر جا کر بیٹھ جاتا اور دوسرا کزن حکومت کے ساتھ مل جاتا، کچھ عرصے بعد حکومتی کزن فوج سے منت کر کے اپنے کزن کو بھی پہاڑوں سے نیچے لے آتا، ڈیل میں ملنے والے پیسے دونوں بانٹ لیتے اور یوں ان کے چار پانچ سال اچھے گزر جاتے، پیسے ختم ہوتے تو پھر وہی چکر دہرا کر مزید رقم اینٹھ لی جاتی۔
بلوچ قوم پرستوں نے بلوچ عوام کی زندگی جہنم کیسے بنا دی؟
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ سرفراز بگٹی کے دلائل جتنے بھی وزنی تھے لیکن میرا دل و دماغ انہیں قبول نہیں کر رہا۔ مجھے بلوچستان میں مسلسل بہتے خون کے جواز کی نہیں بلکہ اسے روکنے کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔ کوئی دلیل کوئی مکالمہ مجھے لاپتہ افراد کے غائب ہونے کا جواز فراہم نہیں کرسکتا، سینکڑوں ہزاروں لاپتہ افراد خود اتنا بڑا المیہ ہیں کہ اس کی وجوہات میں جائے بغیر اس عمل کی مذمت کم از کم انسانی ردعمل ہے۔ خود کش دھماکے، کسی قوم یا قبیلے کا آخری مایوس کن اقدام ہوتا ہے۔ خود کش دھماکے تب ہوتے ہیں جب پانی سر سے گزرجائے۔ مجھے دلائل کے انبار کے باوجود نوروز خان کے قتل ، عطاء اللہ مینگل کے بیٹے کے کراچی میں اغوا کے بعد قتل اور پھر خیر بخش مری کے بیٹے کی افغان سرحد پر موت ہضم نہیں ہوتی۔ ناحق خون ردعمل اور انتقام پیدا کرتا ہے، آخری کھیل بوڑھے نواب اکبر بگٹی کی موت تھی بس اس کے بعد سے بلوچستان میں حالات آؤٹ آف کنٹرول ہیں۔