چند مخصوص ججز نے حکومت کو آئینی ترامیم پر کیسے مجبور کیا؟

سینئیر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ چند مخصوص ججز کی جانب سے حکمراں اتحاد کو جس طرح سے مسلسل کھلے چیلنجز دیے جا رہے تھے، اُن کے بعد حکومت کے پاس آئینی ترامیم کے ذریعے عدلیہ کی اجارہ داری توڑنے کے سوا اور کوئی راستہ باقی نہیں بچا تھا۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائج کا کہنا تھا کہ ’جس طرح کچھ عرصے سے سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے مخصوص ججز سیاسی نوعیت کے لوڈڈ فیصلے دے رہی ہیں اس سے ناصرف حکومت بلکہ فوجی اسٹیبلشمنٹ بھی پریشانی کا شکار ہو چکی تھی چونکہ ان فیصلوں سے سیاسی غیر یقینی کی صورتحال میں اضافہ ہو رہا تھا۔
انھوں نے کہا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں جسٹس منصور علی شاہ اور دیگر سات ججز نے جو فیصلہ دیا اسے آئین دوبارہ سے لکھنے کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس فیصلے سے جسٹس منصور علی شاہ کو بھی ذاتی طور پر فائدہ ہوتا نظر آتا ہے۔ سہیل بڑا ہے اس کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ دینے کے بعد سپریم کورٹ نے جس طرح الیکشن کمیشن اف پاکستان کو ایک دھمکی آمیز خط لکھا اس سے عدلیہ کی ساکھ مزید خراب ہوئی۔ ان حالات میں حکومت کے پاس عدلیہ کا بڑھتا ہوا سیاسی کردار روکنے کے لیے ائینی ترامیم کے علاوہ اور کوئی راستہ باقی نہیں بچا تھا۔

سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن کی جانب سے بلاول بھٹو کے ساتھ حالیہ ملاقات کے بعد واضح ہو گیا ہے کہ حکومت مجوزہ ترمیمی پیکج پاس کرانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ انکا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کو بھی 26ویں آئینی ترمیم میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے تھا اور حکومت کو بھی پی ٹی آئی کی تجاویز پر بھی غور کرنا چاہیے تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت ہے لیکن اس کی قیادت کے کچھ حالیہ فیصلوں سے ان کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ پہلے تحریک انصاف کو عمران خان کے قید میں ہونے کا فائدہ ہو رہا تھا لیکن اب یہ قید پی ٹی آئی کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے کیونکہ کپتان کے چیف منصوبہ ساز جنرل فیض حمید کے گرفتاری کے بعد پارٹی منتشر ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔

سہیل وڑائچ نے کہا کہ ’بظاہر اعلیٰ عدلیہ میں ہمدردی کہ لہر کے باوجود تحریک انصاف ان عدالتی فیصلوں سے استفادہ حاصل نہیں کر سکی جو چند مخصوص ججوں نے اسے فائدہ پہنچانے کے لیے دیے تھے۔ انکا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو اگر سیاست میں رہنا ہے تو اسے اہم آئینی معاملات ہر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہی مل کر بیٹھنا ہو گا۔ ویسے بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی جانب سے بار بار مذاکرات کی خواہش کے باوجود واضح کر چکی ہے کہ اب ایسا نہیں ہو سکتا۔

دوسری جانب پاکستان میں وکلا برادری کے ایک دھڑے نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ وہ کسی صورت میں بھی اس آئینی ترمیم کو پاس نہیں ہونے دیں گے۔ وکلا کے اس دھڑے کی قیادت تحریک انصاف کے سینیئر رہنما حامد خان کر رہے ہیں جبکہ ان کے ساتھ ان کے ہم خیال وکلا بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب وکلا کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل کے وائس چییرمین فاروق ایچ نائیک کا کہنا ہے کہ وزارت قانون کی طرف سے 26 ویں آئینی ترمیم کا مسودہ پاکستان بار کونسل کو بھیجا گیا تھا اور اس ضمن میں ان کی نتظیم نے اس مسودے کا تفصیلی جائزہ لے کر اس میں کچھ تبدیلیاں بھی تجویز کی ہیں جس کے بعد اب مجوزہ ائینی ترامیمی پیکج پاس ہونے جا رہا ہے۔

Back to top button