الیکشن کمیشن اجلاس : مخصوص نشستوں کے معاملے پر پارلیمان کے قانون پر عمل کرنےکی تجویز

مخصوص نشستوں سے متعلق قومی و پنجاب اسمبلی کے اسپیکرز کے خطوط کے معاملے پر الیکشن کمیشن کا اہم اجلاس ختم ہوگیا ہے جہاں قانونی ٹیم نے الیکشن کمیشن کو الیکشن ایکٹ پر عمل کرنےکی حتمی تجویز دےدی۔

مخصوص نشستوں سےمتعلق الیکشن کمیشن کا اہم اجلاس ہوا جس میں اضافی مخصوص نشستیں حکمران اتحاد اور جے یو آئی کو دینے کےمعاملے پر گفتگو ہوئی۔

حکمران اتحاد نے اضافی نشستوں پر نوٹیفائی اراکین کو اسلام آباد طلب کررکھا ہے جہاں اسپیکر قومی اسمبلی کےساتھ ساتھ اسپیکر پنجاب اسمبلی نے بھی اضافی مخصوص نشستیں باقی جماعتوں کو دینے کےلیے الیکشن کمیشن کو خط لکھا تھا۔

اجلاس میں مخصوص نشستوں کے معاملے پر مشاورت مکمل کر لی گئی جہاں قانونی ٹیم نےکمیشن کو مخصوص نشستوں کے معاملے پرپارلیمان کے قانون پر عمل کرنے کا مشورہ دیا۔

ذرائع کے مطابق قانونی ٹیم نے کہا کہ پارلیمنٹ کے منظور کردہ قوانین پر عمل ہر ادرے پر لازم ہے اور الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کاحکم موثر نہیں رہتا۔

دوران اجلاس قانونی ٹیم کی مخصوص نشستوں پرمعطل ارکان بحال کرنے کی تجویز دی۔

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اضافی مخصوص نشستوں کے حامل اراکین کو معطل ر رکھا ہے۔

 

آئینی ترمیم : چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کا نیا طریقہ کار وضع کرنے کافیصلہ

اگر الیکشن کمیشن مخصوص نشستیں حکمران اتحاد اور جے یو آئی(ف) کو دینے کا فیصلہ کرتا ہے تو انہیں دوتہائی اکثریت حاصل ہوجائے گی۔

یہ فیصلہ اس لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ اجلاس ایک ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب حکومت 26ویں آئینی ترمیم کے لیے اتفاق رائے کے لیے کوشاں ہے البتہ اسے ترمیم کی منظوری کے لیے درکار نمبر پورے کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست بھی دائر کر رکھی ہے۔

واضح رہے کہ رواں سال جولائی میں سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دیا تھا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 13 رکنی فل بینچ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیا تھا اور اس کا فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے لکھا گیا تھا۔

اس فیصلے کے بعد 6 اگست کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے شور شرابے اور ہنگامہ آرائی کے دوران الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا تھا۔

ترمیمی بل کے مطابق انتخابی نشان کے حصول سے قبل پارٹی سرٹیفکیٹ جمع نہ کرانے والا امیدوار آزاد تصور ہو گا، مقررہ مدت میں مخصوص نشستوں کی فہرست جمع نہ کرانے کی صورت میں کوئی سیاسی جماعت مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں ہوگی۔

ترمیمی بل میں کہا گیا کہ کسی بھی امیدوار کی جانب سے مقررہ مدت میں ایک مرتبہ کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کا اظہار ناقابل تنسیخ ہو گا۔

بعدازاں گزشتہ ماہ ستمبر میں اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھ کر ترمیم شدہ الیکشن ایکٹ کے تحت مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

انہوں نے خط میں کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن ایکٹ میں تبدیلی ہوچکی ہے، جس کا اطلاق ماضی سے ہوتا ہے لہٰذا الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوسکتا۔

اس سلسلے میں اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے بھی الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر کہا تھا کہ الیکشن ترمیمی ایکٹ کے تحت آزاد امیدواروں کی سیاسی وابستگی سے متعلق عمل درآمد کیا جائے۔

Back to top button