عاصم منیر اور عمران خان کے ٹکراؤ کا بالآخر کیا نتیجہ نکلے گا؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ اس وقت پاکستان دو متضاد بیانیوں کے ٹکراؤ کا شکار ہے۔ ان میں سے ایک بیانیہ "امید” اور بہتر مستقبل کا ہے جس کے دعویدار آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور ان کے ساتھی ہیں۔ دوسرا بیانیہ یہ ہے کہ پاکستان تباہ ہو گیا ہے اور ہمیں اقتدار نہ ملا تو اسکا کوئی مستقبل نہیں۔ یہ بیانیہ تحریک انصاف کے بانی عمران خان اور ان کے ساتھی آگے بڑھا رہے ہیں۔

ان دو بیانیوں کے ٹکراؤ کے نتیجے میں تحریک انصاف اور ریاست کے ایک دوسرے کیخلاف گھائو پورے معاشرے کو گھائل کر رہے ہیں، سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ہم نے چھپے خنجروں سے ایکدوسرے کو شکار کرنے کا وطیرہ اپنا لیا ہے۔ لہذا جب تک یہ سلسلہ نہیں رکے گا، نہ کوئی مصالحت ہو سکتی ہے اور نہ ہی پاکستان آگے بڑھ پائے گا۔

اپنے تازہ تجزیے میں سینیئر صحافی کا کہنا  ہے کہ قلم قبیلہ ہو یا کیمرہ کار ہوں، سب کو کبھی کبھار پھولوں کے ہار پڑتے ہیں جبکہ اکثر گالی بازوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ پھول اور گالی کو نظر انداز کرتے بھی رہیں تب بھی کبھی نہ کبھی گھائو دل کو گھائل کرتے رہتے ہیں۔ ان تخلیقی پیشوں کی زندگی بہت مشکل ہے۔ کبھی آپ کو ایسا مداح مل جاتا ہے جو آپ پر صدقے واری جاتا ہے اور کبھی ایسا متعصب ناقد جس کی آنکھوں سے نفرت اور زبان سے دشنام نمایاں ہوتی ہے۔

پہلے پاکستان میں ریاست اور انتہا پسند عناصر تخلیق کاروں کو دبائو میں رکھنے کیلئے الزام لگاتے تھے لیخن اب مقبول عام بیانیے والوں نے بھی یہی روش اختیار کرلی ہے۔ زوال پزیر معاشروں میں سچے گلیلیو، آفاقی سقراط، سیانے اِبن رُشد اور دور اندیش سرسید احمد خان عوامی مقبولیت حاصل نہیں کر پائے تھے، وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے اپنے زمانے میں مقبول عام بیانئے کے خلاف ڈٹ کر کھڑے رہے۔ لیکن تاریخ کا سبق یہ ہے کہ گلیلیو، سقراط، ابن رشد اور سرسید آج بھی اپنے منفرد لیکن سچے افکار کی وجہ سے زندہ ہیں، اپنے زمانے کے یہ بدنام دانشور آج بھی یاد کئے جاتے ہیں لیکن انکے ہم عصر انکے مقبول بیانیے والے ناقد آج مغضوب اور متروک ہو چکے ہیں۔

سہیل وڑائچ کے بقول آج کل تخلیق کار کا مخمصہ نہ صرف ریاستی بیانیے کا توڑ ہے بلکہ مقبول عام بیانیے کی غلطیاں سامنے لانا بھی ہے۔ وہ جو مقبول عام بیانیے کی رو میں بہہ رہے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ جہاں سب سے بہترین جہاد جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے وہاں سب سے مشکل کام مقبول عام بیانیے کیخلاف کھڑا ہونا بھی ہے، گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہونا بھی بہادری کا اعلیٰ ترین درجہ ہے۔ بہتے دریا میں بے وزن تیراکی سے بہتر ہے کہ نوکدار پتھر کی طرح دریا کا سینہ چیرا جائے، یہ بھی جدوجہد کا سنہری زینہ ہے، چاہے یہ مشق بے نتیجہ ہی کیوں نہ ہو۔ تخلیق کار اپنے ارد گرد بکھرے ہوئے موضوعات میں سے اس موضوع کا انتخاب ترجیحاً سب سے پہلے کرتے ہیں جو انکے خیال میں انہیں سب سے زیادہ چبھتا ہے۔ آج کا چبھتا موضوع پاکستان کے مستقبل کے دو متضاد بیانیے ہیں۔ ایک جنرل عاصم منیر کا ’’امید‘‘ کا بیانیہ ہے اور دوسری طرف انکا مخالف بیانیہ ہے کہ ’’یہ ملک تباہ ہونے جا رہا ہے‘‘۔

سہیل وڑائچ کے خیال میں مقبول عام بیانیہ بدقسمتی سے یہی ہے کہ ’’پاکستان تباہ ہونے جا رہا ہے‘‘۔ اگر کوئی دوسری رائے کا اظہار کرے تو گالیاں کھانے، اپنی ٹرولنگ کروانے اور عدم مقبول ہونے کا رسک ہے، گو منصور آج حق کا استعارہ ہے مگر جب وہ پھانسی چڑھایا جا رہا تھا تو کیا سب نے اسے پتھر نہیں مارے تھے، اس کیساتھ کھڑا تو کوئی بھی نہیں ہوا تھا۔ آج بوڑھا رائے احمد خان کھرل پنجاب میں مزاحمت کا استعارہ ہے مگر جب وہ انگریز حاکم برکلی سے برسرپیکار تھا تو تب نہ ملتان کے مخدوم شاہ محمود قریشی نے انہیں پھول بھیجے اور نہ اس وقت کے نواب خاندان کے کھرلوں نے۔ بلکہ وہ دونوں تو انگریز سرکار کے ساتھی اور اسکی سازش کا حصہ تھے۔ احمد خان اکیلا رہ کر دس محرم کو جام شہادت نوش کر گیا۔ دوسری جانب مقبول عام بیانیے کیساتھ کھڑے قریشی پیر اور کھرل نواب جاگیریں اور خلعتیں پا کر مطمئن ہوئے۔ لیکن تاریخ میں اس وقت کا بدنام رائے احمد خان کھرل آج کا ہیرو ہے اور اس وقت کے معزز قریشی، نواب ،کھرل غدار اور زیرو ہیں۔

سہیل وڑائچ کے بقول، اور تو اور معاشرے کی اکثریت نے اس صدی کے سب سے بڑے افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی کیا عزت کی؟ ان پر فحش نگاری کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا، اتنا بڑا آدمی ہونے کے باوجود منٹو ہمیشہ گھر کے خرچے سے تنگ رہتا تھا، آج منٹو صدی کا ایک بڑا نثر نگار ہے لیکن وہ اپنے زمانے میں مشکوک تھا۔ فیض احمد فیض اب مقبول عام ہیں مگر اپنے زمانے کے غدار ٹھہرے تھے۔ فراز کیساتھ ریاست نے کیا کیا کچھ نہیں کیا اور ان کے چاہنے والے بھی ہمت نہیں کر پاتے تھے کہ ان کیساتھ کھڑے ہو پائیں۔ کہنے کا مقصد یہ یے کہ تخلیق کار کو گالی اور پھول سے بے نیاز ہو کر ہی بات کرنی پڑتی ہے، تب ہی وہ تاریخ میں زندہ رہتا ہے۔ وہ اپنے زمانے کی مقبولیت اور عدم مقبولیت سے ماورا ہو کر ہی بے باک سچ بول سکتا ہے، اگر وہ بھیڑ چال میں شریک ہو جائے تو خرد مندی کا سبق کیسے پڑھا سکے گا۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اپنے 40 سالہ صحافتی سفر میں ریاستی جبر کی کہانیاں پھر کبھی سہی۔ پہنائے گئے پھولوں کے ہاروں کی داستان بھی آج کا موضوع نہیں، برسائی گئی پھولوں کی پتیوں کا مزہ لینا بھی آج مناسب نہیں۔ اپنی تعریف صرف شاعروں کی تعلی میں ہی ہضم ہو سکتی ہے، عاجز قلم مزدوروں کو یہ زیبا نہیں۔ آج کا موضوع وہ رویے ہیں جو عدم برداشت کے معاشرے میں بار بار سامنے آتے ہیں۔ مرحوم و مغفور نوابزادہ نصر اللہ خان پر ایک مزاحیہ اور طنزیہ کالم لکھا تو انہوں نے تند و تیز جملوں کو قہقہوں میں اڑا کر برداشت کا خوبصورت مظاہرہ کیا۔ قاضی حسین احمد میرے سرپرستوں میں سے تھے ذاتی شفقت بھی بہت کرتے تھے لیکن ایک انگریزی کالم میں جماعت اسلامی کی تنگ نظری پر قلم اٹھایا تو غصے میں آگئے۔ محترمہ بینظیر بھٹو بھری محفل میں میری تعریف کیا کرتی تھیں لیکن ایک بار ایک ہی چبھتے ہوئے سوال کو بار بار دہرایا تو رونے لگ گئیں اور مجھے معافی مانگ کر انہیں راضی کرنا پڑا۔ نواز شریف بھی فوراً برا مان جاتے ہیں تنقیدی جملہ سنیں تو غصے سے انکا رنگ سرخ ہو جاتا ہے۔ شہباز شریف تنقید برداشت کر لیتے ہیں لیکن بعد میں گلہ گزاری اور شکایت کرتے ہیں۔ عمران خان تو طنزیہ، مزاحیہ، تنقیدی تحریر یا مکالمہ پڑھ کر یا سن کرگالیوں پر اتر آتے ہیں۔ صدر زرداری بھی تحمل و برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ نواز شریف اور آصف زرداری میرے لہجے اور سوالوں کی نقل کرکے مذاق بھی اڑا لیتے ہیں۔ عمران خان بھی اپنے ساتھ کئے گئے انٹرویو کے واقعات اور سوالات کا ہر میٹنگ میں ذکر کرتے ہیں۔ اس عاجز صحافی نے کبھی کسی کا اسکینڈل نہیں بنایا، کسی کو زندگی بھر برا نہیں کہا، البتہ طنز و مزاح اور شائستہ تنقید ضرور کی ہے کوشش کی ہے کہ کبھی کسی کو گھائو نہ لگائوں اور جوابی توقع بھی یہی ہے کہ شائستہ رویے میں ہر بات کا جواب دیا جاسکتا ہے۔ مگر جب خنجر اور نوکِ زبان سے گھائو لگائیں تو عاجزوں کو بھی گھائو لگتا ہے۔

حکومت سے مذاکرات کے باوجود عمران کی رہائی ممکن کیوں نہیں؟

سہیل وڑائچ کے بقول، تہذیب یافتہ اور غیرتہذیب یافتہ معاشرے میں بنیادی فرق برداشت اور تحمل کا ہے، تہذیب یافتہ معاشروں میں تعریف، تنقید، طنز و مزاح سب چلتےہیں، سکینڈل بھی زیربحث آتے ہیں مگر کوئی گھائو نہیں لگاتا۔ غیر مہذب معاشرے میں ہر کوئی دوسرے کو گھائو لگاتا ہے، گھائو کا زخم گہرا ہوتا ہے جو جلدی مندمل نہیں ہوتا۔ تحریک انصاف اور ریاست کے ایک دوسرے کیخلاف گھائو پورے معاشرے کو گھائل کر رہے ہیں، کیا عام اور کیا خاص، ہم سب نے چھپے خنجروں سے ایک دوسرے کو شکار کرنے کا وطیرہ اپنا لیا ہے۔ جب تک یہ نہیں رکے گا کوئی مصالحت نہیں ہوگی۔

Back to top button