حکومت سے مذاکرات کے باوجود عمران کی رہائی ممکن کیوں نہیں؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی نے کہا ہے کہ اگر کسی کو یہ غلط فہمی ہے کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں عمران خان جیل سے باہر آ پائیں گے تو اسے دور کر لے کیونکہ اس بات کا رتی بھر بھی امکان نہیں۔

اپنے تازہ تجزیے میں انصار عباسی کہتے ہیں کہ اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف کی قیادت کے مابین مذاکرات کے نتیجے میں موجودہ نظام میں کوئی بڑی تبدیلی آ جائے گی، اور عمران خان جیل سے نکل کر اقتدار کی کرسی پر آ بیٹھیں گے تو ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سوچ ہی بچگانہ ہے کہ حکومت عمران خان کے ساتھیوں سے مذاکرات کرنے کے بعد انہیں باہر لے آئے گی اور اپنا اقتدار خان کے حوالے کر دے گی، خصوصا جب بانی تحریک انصاف بار بار کے احتجاجی دھرنوں کے ناکام ہونے کے بعد اب سیاسی طور پر کمزور ترین پوزیشن میں آ چکے ہیں۔ سب سے اہم چیلنج اب بھی عمران خان کیلئے یہ ہے کہ وہ کس طرح اپنے سیاسی مخالفین اور اسٹیبلشمنٹ کااعتماد حاصل کریں۔ اس وقت نہ فوجی اسٹیبلشمنٹ اور نہ ہی اُن کے سیاسی مخالفین کو اُن پر ذرہ برابر بھی اعتماد ہے۔

انصار عباسی کہتے ہیں کہ اس کھوئے ہوئے اعتماد کو حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پارٹی کے انتشاری ٹولے سے جان چھڑائی جائے اور پی ٹی آئی میں ایسے لوگوں کی بات کو سنا جائے جو سیاسی تدبراور قومی سوچ کے مالک ہیں اور جو جھوٹ، الزامات اور گالم گلوچ کی سیاست سے پارٹی کو صاف کرنا چاہتے ہیں۔ سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ شہباز شریف حکومت نے تحریک انصاف سے مذاکرات کیلئےحکومتی اتحاد کے اراکین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ یہ بہت مثبت اقدام ہے اور اب امید کی جا سکتی ہے کہ تحریک انصاف کو ایک موقع ملے گا کہ وہ اپنے ماضی بالخصوص گزشتہ دو ڈھائی سال کے الزامات، انتشار، جلائو گھیرائو ، فوج سے ٹکرائو، ملکی معیشت پر حملوں کی منفی سیاست کو خیرباد کہہ کر اپنے لیے سیاسی سپیس پیدا کرے۔ منفی سیاست نے سب سے بڑا نقصان خود تحریک انصاف کا ہی کیا ہے اور عمران خان کی مشکلات میں اضافے کا باعث بنی ہے۔ تحریک انصاف کی بدقسمتی رہی کہ عمران خان اپنی پارٹی اور اپنے اردگرد موجود ایسے افراد کی بات سنتے رہے جنہوں نے اُن کو اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ فوج سے بھی لڑوا دیا، الزامات، جھوٹے پروپیگنڈے اور گالم گلوچ کے کلچر کو پارٹی میں تقویت دی اور بعض ایسے بھی اقدامات کیے گئے جو پاکستان کے مفاد میں نہ تھے۔

تاہم انصار عباسی کے خیال میں اس میں عمران خان کا قصور اس لیے زیادہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی پارٹی کے سمجھدار رہنمائوں کی بجائے جذباتی، جھوٹے اور شرارتی لوگوں کی بات زیادہ سنی۔ اب ان کی پارٹی اس حال تک پہنچ چکی ہے کہ ہر قسم کا احتجاج کر کے دیکھ لیا، 9 مئی کا افسوسناک واقعہ بھی کر لیا، قومی معیشت کو نقصان پہنچانے کاکوئی موقع بھی نہ چھوڑا، فوج اور فوجی قیادت کے خلاف ہر قسم کا گھٹیا پروپیگنڈا بھی کر لیا لیکن وہ نہ تو جیل سے باہر آ پائے اور نہ ہی اقتدار حاصل کر سکے۔

اب وہی عمران خان جو کبھی اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ ہاتھ ملانا تک گوارا نہیں کرتے تھے اور انہیں چور اور ڈاکو ہونے کے طعنے دیتے تھے، اب حکومت کے ساتھ مذاکرات کیلئے منتیں ترلے کر رہے ہیں۔ لیکن چلیں آخر کار عمران خان نے اپنے ایسے پارٹی رہنمائوں کی بات سن لی جو اپنے سیاسی مخالفین سے بات کرنے اور سیاست کو دشمنی میں بدلنے کے خلاف تھے۔ اب حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کیلئے دونوں اطراف نے مذاکراتی کمیٹیاں تشکیل دے دی گئی ہیں۔

لیکن انصار عباسی کہتے ہیں کہ مجھے ویسے اب بھی ڈر ہے کہ عمران خان پھر سے کوئی ایسا کام نہ کر دیں جس سے یہ سلسلہ رک جائے۔ خان صاحب پوری کوشش کرتے رہے اور اُنہوں نے ہر حربہ بھی استعمال کر لیا کہ کسی طرح فوج سے اُن کی بات چیت ہو جائے۔ اس کوشش میں فوج اور فوجی قیادت کو دبائو میں لانے کیلئے اُن کے خلاف ہر قسم کا پروپیگنڈا بھی کیا گیا لیکن فوج نے اُن سے بات چیت کرنے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ بات کرنی ہے تو سیاسی جماعتوں کے ساتھ کریں۔ اگر اب عمران نے ان مذاکرات کو کامیاب ہونا ہے اور اپنی سیاست کیلئے کوئی آسانیاں پیدا کرنی ہیں تو پھر عمران کو اپنے ٹیوٹر اکائونٹ کے ساتھ ساتھ اپنی پارٹی کے سوشل میڈیا بریگیڈ کو الزامات، جھوٹ، انتشار اور ٹکرائو پھیلانے سے روکنا پڑے گا۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ عمران خان کی اصل لڑائی اسٹیبلشمنٹ سے ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ حکومتی اتحاد کے ساتھ مذاکرات کریں اور ساتھ ساتھ فوج کو ماضی کے طرح سوشل میڈیا اور اپنے بیانات کے ذریعے نشانہ بھی بناتے رہیں۔ مذاکرات کا جوبھی نتیجہ نکلے، سب سے ضروری یہ ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے، اپنی سیاست کے مستقبل کیلئے رستہ ہموار کریں۔ اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ ان مذاکرات کے نتیجے میں موجودہ نظام میں کوئی بڑی تبدیلی آ جائے گی، عمران خان جیل سے نکل کر اقتدار کی کرسی پر آ بیٹھیں گے تو ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ سب سے اہم چیلنج اب بھی عمران خان کیلئے یہ ہے کہ وہ کس طرح اپنے سیاسی مخالفین اور اسٹیبلشمنٹ کااعتماد حاصل کریں۔ اس وقت نہ تو اسٹیبلشمنٹ اور نہ ہی اُن کے سیاسی مخالفین کو اُن پرذرہ برابر بھی اعتماد ہے۔

Back to top button