بلوچستان لبریشن آرمی کی بڑھتی ہوئی طاقت کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟

بلوچستان میں 26 اگست 2024 کو نواب اکبر خان بگٹی کی 18ویں برسی کے موقع پر صوبہ بھر میں ہونے والے حملوں اور بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرنے والی بلوچ قوم پرست عسکری تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی یا بی ایل اے کی عسکری قوت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جو پاکستانی فوجی حکام کے لیے تشویش ناک ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ بلوچستان لبریشن ارمی کو بھارت اور افغانستان دونوں کی جانب سے مالی امداد دی جا رہی ہے جس سے اس کی قوت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم بی ایل اے کی قیادت ان الزامات کو سختی سے رد کرتی ہے۔
بی ایل اے پہلی مرتبہ 1970 کی دہائی کے اوائل میں وجود میں آئی تھی جب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پہلے دور حکومت میں بلوچستان میں ریاست پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت شروع کی گئی تھی۔ اس دوران بی ایل اے نے بھٹو پر دستی بم سے حملہ بھی کیا تھا جس میں وہ بچ گئے تھے۔
بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کی بجائے اس پر پردہ کیوں ڈالا جا رہا ہے ؟
تاہم فوجی آمر ضیاالحق کی جانب سے اقتدار پر قبضے کے بعد بلوچ قوم پرست رہنماﺅں سے مذاکرات کے نتیجے میں مسلح بغاوت کے خاتمے کے بعد بی ایل اے بھی پس منظر میں چلی گئی۔ لیکن مشرف کے دور اقتدار میں بلوچستان ہائیکورٹ کے جج جسٹس نواز مری کے قتل کے الزام میں قوم پرست رہنما نواب خیر بخش مری کی گرفتاری کے بعد سال 2000 سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سرکاری تنصیات اور سکیورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان حملوں میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ ان کا دائرہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پھیل گیا۔ ان حملوں میں سے زیادہ تر کی ذمہ داری بی ایل اے کی جانب سے قبول کی جاتی رہی۔ اگست 2006 میں جنرل مشرف کے حکم پر بلوچ قوم پرست لیڈر نواب اکبر خان بگٹی کو ایک فوجی آپریشن میں شہید کر دیا گیا جس کے بعد بی ایل اے کی کاروائیوں میں تیزی اگئی حالانکہ بگتی کا بی ایل اے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔ سال 2006 میں ہی حکومتِ پاکستان نے بلوچ لبریشن آرمی کو کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کر لیا۔ اس دوران فوجی حکام کی جانب سے نواب خیر بخش مری کے بیٹے نوابزادہ بالاچ مری کو بی ایل اے کا سربراہ قرار دیا جاتا رہا۔
نومبر 2007 میں بالاچ مری کی موت کی خبر آئی اور کالعدم بی ایل اے کی جانب سے کہا گیا کہ وہ افغانستان کی سرحد کے قریب سکیورٹی فورسز سے ایک جھڑپ میں مارے گئے۔ بالاچ مری کی ہلاکت کے بعد پاکستانی حکام کی جانب سے برطانیہ میں مقیم ان کے بھائی نوابزادہ حربیار مری کو بی ایل اے کا سربراہ قرار دیا جانے لگا۔ تاہم حربیار کی جانب سے کسی مسلح گروہ کی سربراہی کے دعووں کو سختی کے ساتھ مسترد کیا جاتا رہا۔
نوابزادہ بالاچ مری کی موت کے بعد بی ایل اے کی قیادت میں جو نام ابھر کر سامنے آیا وہ اسلم بلوچ کا تھا جس کا شمار تنظیم کے مرکزی کمانڈروں میں کیا جانے لگا۔ اسلم بلوچ عرف اسلم اچھو کے ایک فوجی کی ایک کارروائی میں زخمی ہونے کے بعد علاج کی غرض سے انڈیا جانے پر ان کے تنظیم کے دیگر رہنماؤں سے اختلافات کی خبریں بھی سامنے آئیں۔ صحت مند ہونے کے بعد اسلم بلوچ بلوچستان اور افغانستان کے مختلف علاقوں میں مقیم رہا۔
اسلم بلوچ کے دور میں ہی بی ایل اے میں ان کے زیر اثر گروپ کی جانب سے خود کش حملے بھی شروع کر دیے گئے جن کو تنظیم کی جانب سے فدائی حملے قرار دیا جاتا رہا۔ یہ تنظیم چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے یا سی پیک کی بھی مخالفت کرتی رہی ہے اور اس نے اپنی حالیہ کارروائیوں میں پاکستان میں چینی اہداف کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ بی ایل اے کی جانب سے اگست 2018 میں سب سے پہلے جس خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی وہ خود اسلم بلوچ کے بیٹے نے ضلع چاغی کے ہیڈکوارٹر دالبندین کے قریب کیا تھا۔ اس حملے میں سیندک منصوبے پر کام کرنے والے افراد کی جس بس کو نشانہ بنایا گیا تھا اس پر چینی انجینیئر بھی سوار تھے۔ اس کے بعد کالعدم بی ایل اے نے نومبر 2018 میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ یہ حملہ تین خود کش حملہ آوروں نے کیا تھا۔ اس حملے کے بعد ہی قندھار کے علاقے عینو مینہ میں ایک مبینہ خودکش حملے میں اسلم اچھو کی ہلاکت کی خبر آئی اور اطلاعات کے مطابق اب بی ایل اے کی قیادت بشیر زیب نے سنبھالی ہے۔
قیادت میں تبدیلی کے باوجود بی ایل اے کی جانب سے ’فدائی‘ سکواڈ کی کارروائیوں کا سلسلہ رکا نہیں اور رواں سال مئی میں گوادر میں پرل کانٹینیٹل ہوٹل پر بی ایل اے کے مجید بریگیڈ کے ارکان نے ایسا ہی ایک حملہ کیا۔ مجید بریگیڈ مجید بلوچ نامی شدت پسند کے نام پر تشکیل دیا گیا جنھوں نے 1970 کی دہائی میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر دستی بم سے حملے کی کوشش کی تھی۔
نومبر 2017 میں بلوچ لبریشن آرمی ’بلوچ راجی آجوئی سنگر‘ یا براس نامی بلوچ شدت پسند تنظیموں کے ایک اتحاد کا بھی حصہ بن گئی۔ اس اتحاد میں بی ایل اے کے علاوہ بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچستان ریپبلکن گارڈز نامی تنظیمیں بھی شامل ہیں اور اس کی کارروائیوں کا مرکز زیادہ تر چین پاکستان اقتصادری راہدری کے آس پاس کے علاقے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بلوچستان لبریشن آرمی پاکستان کی واحد عسکریت پسند جماعت ہے جس کی تین خودکش بمبار فدائی حملوں میں اپنی جانیں گنوا چکی ہیں۔ ان خودکش بمباروں میں آخری حملہ کرنے والی ماہل بلوچ نے 26 اگست 2024 کو بیلہ میں سکیورٹی فورسز کے ایک کیمپ سے بارود سے بھری گاڑی ٹکرا دی تھی۔
