عدالتی مداخلت کے بعد اب فوج کی مداخلت کون ختم کرے گا؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے کہا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم منظور ہونے سے عدالتی ڈکٹیٹر شپ کا تو خاتمہ ہو جائے گا لیکن اہم ترین سوال یہ ہے کہ ملکی سیاست میں فوج کی بے جا مداخلت کا خاتمہ کب اور کیسے ہو گا جس نے پارلیمنٹ کو کمزور کرنے کےلیے عدلیہ کو اتنا طاقتور بنا دیا تھا۔

بی بی سی اردو کےلیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ اجتماعی دانش اگر انفرادی حاکمیت میں بدل جائے تو اقتدار کے محل بھی مقبرے بن جاتے ہیں۔ ٹرائے جیسی عظیم سلطنت فوجی اکثریت سے نہیں بلکہ ٹروجن ہارس کی حکمت عملی کے تحت محض 40 جنگجوؤں کی بہترین حکمت سے زیر کی گئی۔ دُنیا فتح کرنے والا سکندر اعظم اپنی انا کو ایک طرف رکھ کر آگے بڑھتا تھا اور یہ تسلیم کرتا تھا کہ فتح خود کو شکست دینے کا نام ہے۔ لیکن جب راہبری اور لیڈرشپ محض اناؤں کی جنگ بن کر رہ جائے تو پھر بات ’ہم‘ نہیں ’میں‘ تک ہی رہتی ہے۔

عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ کوئی بھی جنگ جیتنے کےلیے پیادہ سپاہیوں کے ساتھ ساتھ حکمت عملی ترتیب دینے والے دماغ نہ ہوں تو آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ موجودہ سیاسی ماحول اور 26ویں ترمیم کے تناظر میں عدد سے زیادہ سیاسی حکمت عملی اور شخصیت پرستی سے ذیادہ اجتماعی سوچ کامیابی کی ضمانت بنی ہے۔پارلیمانی نظام پر جس قدر نقب زنی کی گئی ہے دو رائے نہیں کہ پارلیمان کی بالادستی کےلیے پارلیمان کو ہی آگے آنا تھا۔ عدلیہ اور فوج کا گٹھ جوڑ ٹوٹ چکا مگر دونوں کی انکروچمنٹ تاحال جاری ہے۔ بہرحال عدالتی اصلاحات کی جانب قدم بڑھایا گیا ہے گو اس کی ٹائمنگ پر اعتراض موجود ہے۔حکمران اتحاد کی سیاسی حکمت عملی، مولانا اور بلاول کا ’ایک صفحہ‘ دراصل نظریاتی اختلاف کے باوجود اتفاق کی نایاب مثال ہے۔ عدالتی اصلاحات سے متعلق ترامیم میں دو تہائی اکثریت نہ ہونے کے باوجود مطلوبہ نمبر حاصل کرنا موجودہ حکمران اتحاد کی بہرحال بڑی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے۔

تحریک انصاف کا کون سا گروپ عمران کو جیل میں ہی رکھنا چاہتا ہے؟

عاصمہ کے بقول مولانا فضل الرحمن کے پارلیمان میں کُل 13 اور تحریک انصاف کے اراکین کی تعداد سو سے زائد ہے تاہم سیاسی حکمت عملی میں مولانا فضل الرحمن نے حزب اختلاف کی سیاست میں سینٹر سٹیج حاصل کیا جبکہ تحریک انصاف اپنی عددی برتری سے فائدہ اٹھانے اور اپنے پیادہ سپاہیوں کے ذریعے پارلیمانی جنگ جیتنے میں ناکام ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کا المیہ ہے کہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے محاذ پر پروپیگنڈہ مضبوط ہونے کے باوجود سیاسی حکمت عملی بنانے میں ناکام رہی ہے۔ اسمبلیوں سے استعفے دینے کا معاملہ ہو یا پارلیمانی سیاست میں متحرک کردار ادا کرنا، بدقسمتی سے احتجاج اور پُرتشدد احتجاج کو ہتھیار تو بنایا گیا مگر موثر سیاسی لائحہ عمل کو قطعی نہیں آزمایا گیا۔

سینیئر اینکر پرسن کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف میں بہت سے زرخیز سیاسی دماغ موجود ہیں جو اس جماعت کو ایک سیاسی جماعت بنانا چاہتے ہیں اور بلاشُبہ بیرسٹر گوہر اُنہی میں سے ایک ہیں، کاش اُن جیسے زرخیز سیاسی راہنماؤں کی بات سُنی جاتی، محاذ آرائی اور چڑھائی سے اجتناب کیا جاتا مگر اس کےلیے اپنی ذات کو پیچھے دھکیلنا پڑتا جو نہیں ہو سکا۔ کیا تحریک انصاف اپنی سیاسی غلطیوں کا احاطہ کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے، کیا تحریک انصاف جو بلاشُبہ ایک بڑی سیاسی جماعت ہے مقبول ہونے کے ساتھ معقول سیاست کا استعمال کرے گی؟ کیا ایک سیاسی جماعت یہاں وہاں بکھرے، بھگوڑوں کی ان ہاؤس مہم جوئی سے جان چُھڑا کر حقیقت پسندانہ پالیسی اختیار کرے گی؟ تحریک انصاف میں 6 اراکین قومی اسمبلی کا ایک فاؤڈ بلاک بن جانے کا نقصان اس کی پارلیمانی سیاست کو ہو گا۔

عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ عدالتی ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے کےلیے پارلیمنٹ 26 ویں ائینی ترمیم منظور کروانے میں کامیاب تو ہو گئی، تاہم اس ترمیم کے بعد بھی پارلیمنٹ کی بالادستی تب تک ممکن نہ ہو گی جب تک فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ختم کرنے اور ادارے کو اپنی حدود تک محدود کرنے کے اقدامات نہ کیے گئے۔ اس مقصد کےلیے ہر کسی کو اپنی اناؤں سے پیچھے ہٹنا پڑے گا، تب ہی  آئین کی جیت ہو گی۔

Back to top button