اینٹی عمران مولانا اچانک فوجی اسٹیبلشمنٹ کیخلاف کیوں ہو گئے؟

پاکستانی کے حالیہ سیاسی منظرنامے کو دیکھتے ہوئے کامیابی کا اندازہ لگایا جائے تو مولانا فضل الرحمن ہر اعتبار سے سرخرو اور فاتح نظر آتے ہیں۔ 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے دوران ان کو حاصل ہونے والی سیاسی کامیابیاں حیران کن ہیں کہ کیسے مولانا نے پارلیمان میں اکثریتی سیٹیں رکھنے والی بڑی سیاسی جماعتوں کو تگنی کا ناچ نچایا اور پھر اپنی شرائط پر ان سے معاملات آگے بڑھائے۔ جہاں ماضی میں خود کو مولانا ڈیزل تک کے خطابات دینے والی پی ٹی آئی کی سیاسی امامت اپنے سر لی وہیں دوسری جانب اپنے ماضی کے اتحادیوں سے بھی گن گن کر بدلے لئے۔ یہاں تک کہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی آنکھیں دکھانے اور للکارنے سے باز نہیں آئے۔

خیال رہے کہ اس وقت پاکستانی سیاست بنیادی طور پر تحریک انصاف اور اینٹی تحریک انصاف کیمپس میں منقسم ہے۔ جے یوآئی فروری کے انتخابات سے پہلے اینٹی تحریک انصاف کیمپ ہی میں تھی۔ مولانا نے اب اپنے آپ کو باہر نکالا اور ایک تیسری آپشن تخلیق کی یعنی ایسی اپوزیشن جماعت جو اینٹی تحریک انصاف ہونے سے زیادہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بن چکی ہے۔

مبصرین کے مطابق مولانا فضل الرحمان سمجھتے ہیں کہ سیاست میں نظریات کی بجائے مفادات اور مقاصد کو سامنے رکھا جاتا ہے، جہاں سیاسی فائدہ ہو اسے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دینا چاہیے 26ویں آئینی ترمیم کے معاملے میں بھی مولانا نے یہی کلیہ اپنایا ہے۔

مبصرین کے مطابق مولانا کے ناقدین ان پر یہی تنقید کرتے رہے ہیں کہ وہ مفادات کی سیاست کرتے ہیں۔ سیاسی جوڑتوڑ اور اپنے مقاصد حاصل کرنے میں انہیں اس کی پروا نہیں ہوتی کہ کسی بدنام اور کرپشن کے الزامات میں ملوث سیاسی جماعت کے ساتھ اقتدار کا حصہ بن جائیں۔یہ خیال دامن گیر نہیں رہتا کہ کوئی ان پر اقرباپروری کا الزام لگا دے گا۔ شاید اس لیے کہ پارٹی پر ان کی گرفت مضبوط تھی اور اس لیے بھی کہ انہیں اپنے ووٹ بنک کے پکے ہونے کا یقین تھا۔

مبصرین کے مطابق حالیہ الیکشن میں مولانا کو جو شدید دھچکا پہنچا، وہ اس لیے بھی ان کے لیے تکلیف دہ تھا کہ وہ پچھلے تین برسوں میں پی ڈی ایم اتحاد کے سربراہ رہے اور تب ن لیگ اور پی پی پی ان کے ساتھ جڑی رہی۔

مولانا کے قریبی حلقوں کے مطابق مولانا کو توقع تھی کہ فروری 2024 کے الیکشن کے بعد انہیں حکومت میں مناسب شیئر ملے گا، وہ بلوچستان کی صوبائی حکومت اور کے پی کے گورنر شپ کے علاوہ صدرمملکت کے عہدے کو بھی اپنی جماعت کا حق سمجھتے تھے۔ تاہم الیکشن کے بعد سب کچھ الٹ ہوا۔

تاہم 26 ویں آئینی ترمیم نے مولانا فضل الرحمن کو مرکزی حیثیت دلوا دی۔ پھر انھوں نے نہ صرف متحارب سیاسی جماعتوں سے گن گن کر بدلے لئے بلکہ مولانا نے 26 ویں آئینی ترمیم کے پہلے ڈرافٹ کو ہی یکسر رد کر دیا اور پھر تین چار ہفتوں تک مذاکرات کا ایسا دور چلا جس میں ہر ایک کی توجہ کا مرکز مولانا فضل الرحمن ہی تھے۔

کہا جاتا ہے کہ مولانا نے تحریک انصاف کے رہنماؤں کو سمجھایا، ’اس ترمیم میں ہم ملٹری کورٹس والی شق شامل نہیں ہونے دیں گے، آپ کے قائد پر جو کیسز ہیں، وہ آسانی سے عدالتوں سے ختم ہوجائیں گے، اس لیے جتنا کچھ اس ترمیم سے حذف ہو رہا ہے، اسے ہونے دیں۔ اگر ہم ساتھ شامل نہ ہوئے تو پھر آئینی ترمیم میں کچھ بھی آسکتا ہے۔‘تحریک انصاف کو یہ بات سمجھ آ گئی، اس لیے انہوں نے آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالنے پر مولانا کو مطعون نہیں کیا اور اس کی مخالفت کرنے کے بجائے تکنیکی طور پر بائیکاٹ کیا۔

مولاناکے قریبی ساتھیوں کے مطابق 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد حکومت یقینی طور پر جے یوآئی کو اقتدار میںشامل کرنا چاہ رہی ہے، مگر مولانا حکومت میں شامل ہونے سے انکاری ہیں۔

Back to top button