سیاسی ججز کو کنٹرول کرناچیف جسٹس آفریدی کیلئے چیلنج کیوں؟
سینیئر صحافی انصار عباسی نے کہا ہے کہ نئے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس یحیی آفریدی کے لیے سب سے بڑا چیلنج عدلیہ میں سیاسی گروہ بندی کا خاتمہ اور سیاسی ایجنڈا لیکر چلنے والے سینئیر ترین ججز کو کنٹرول کرنے کا ہو گا۔ انکا کہنا یے کہ جس جج نے سیاست کرنی ہے وہ جج کے عہدے سے استعفیٰ دے اور کھل کر سیاست کر لے۔ جن ججز کی عدالت میں کیس لگتے ہی پتہ ہو کہ انکا فیصلہ کیا ہونا ہے، انہیں منصف کی کرسی پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ایسے ججز کو خود احتسابی کے عمل سے گزرنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ آیا وہ اپنے حلف سے انصاف کر رہے ہیں یا نہیں۔ ایسے جج اگر سیاست نہیں چھوڑتے تو اُن کیلئے عدلیہ کی بجائے باقاعدہ سیاست کا میدان بھی موجود ہے۔
اپنے تازہ تجزیے میں انصار عباسی کہتے ہیں کہ نئے چیف جسٹس کو دیکھنا ہو گا کہ پاکستانی عدالتوں میں منصفوں کی جگہ کوئی سیاست دان نہ بیٹھا ہو۔ سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ یحییٰ آفریدی پاکستان کے نئے چیف جسٹس بن چکے ہیں۔ اُنکے ماضی اور اُنکی شہرت کے بارے میں سب جانتے ہیں لیکن اُن کا اصل امتحان اب شروع ہوا ہے جس کا نتیجہ تین سال کے بعد نکلے گا جب وہ ریٹائر ہو نگے اور جس کی بنیاد پر اُنہیں یاد رکھا جائے گا، اس دوران انکے ایکشنز سے اُن کے پاس ہونے یا فیل ہونے کا فیصلہ ہو گا۔ ججز نے کافی سیاست کر لی، کچھ ججز نے ’نہ جھکنے والے، نہ ڈرنے والے‘ سچے یا جھوٹے تمغے بھی اپنے سینوں پر سجا لیے اور کچھ ججز یہ تمغے سجانےکیلئے سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ وقت آ گیا یے کہ اپنے فیصلوں میں انگریزی ناولز کا ذکر کرتے ہوئے سیاست دانوں کو سسیلین مافیا قرار دینے والے ججز اپنا بنیادی کام بھی کر لیں۔ نئے چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ عدلیہ کو اپنے اصل کام یعنی عوام کو جلد اور سستا انصاف دینے پر بھی لگا دیں۔ اب ٹی وی چینل کے ٹِکرز اور بریکنگ نیوز کو بھول کر اس ملک کے عوام کو انصاف دیں۔ لاکھوں مقدمات جو عدالتوں میں سالہا سال اور دہائیوں سے پڑے ہیں اُن کا فیصلہ کریں۔ لوگ جو کورٹ کچہری کا نام سن کر ڈرتے ہیں اُن کا پاکستان کے عدالتی نظام پر اعتماد بحال کریں۔
انصار عباسی کہتے ہیں کیا ہمیں سیاسی ججز نہیں چاہئے، ہمیں وہ جج چاہیے جو عوام کو جلد انصاف دے۔ یہ وہ اصل چیلنج ہے جس کا چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو سامنا ہے۔ پاکستان کی عدلیہ پر کسی کو اعتماد نہیں۔ اگر ایک طرف عوام اپنے عدالتی نظام سے بہت مایوس ہیں تو دوسری طرف دنیا بھر میں بھی ہماری عدلیہ آخری نمبروں پر آتی ہے۔ چند روز قبل رول آف لا کی رپورٹ برائے سال 2024ءمیں 142 ممالک میں سے پاکستان کا نمبر 129واں رہا۔ جس کا مطلب ہے کہ ہمارا حال بہت ہی بُرا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے جس طرح ہماری اعلیٰ عدلیہ خصوصاً سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج ایک دوسرے کو اپنے عدالتی فیصلوں اور خطوط کے ذریعے نشانہ بنا رہے ہیں اُس کی وجہ سے عدالت ِعظمیٰ اور اس کے ججزکے احترام میں بہت کمی ہوئی ہے۔ اس نے ججوں اور اعلیٰ عدلیہ پر لوگوں کو جگ ہنسائی کا موقع فراہم کیا ہے۔ یعنی جج خود اپنے آپ کااور عدلیہ کے مذاق کا ذریعہ بن چکے ہیں۔
انصار عباسی کے مطابق ایسے خط لکھنے کا رواج سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ڈالا جو اب اتنا رواج پا چکا ہے کہ آئے روز ایک جج دوسرے جج کی پوری دنیا کے سامنے ایسی تیسی کر رہا ہوتا ہے۔ قاضی فائز عیسٰی کی ریٹائرمنٹ کے روز جسٹس منصور علی شاہ نے جو خط لکھا اور جو زبان استعمال کی اُسے پڑھ کر افسوس ہوا۔ اس خط میں جسٹس منصور نے قاضی فائز عیسٰی کی ایسی تیسی کی جس پر بہت سے لوگ خوش ہوئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سے اس بات پر حیران بھی ہوئے کہ جسٹس منصور نے یہ کیا خط لکھا، کیسی زبان استعمال کی اور کس موقع پر ایسا کیا۔ کسی کیلئے اس خط نے اگر فائز عیسیٰ کو ایکسپوزکیا تو دوسروں کیلئے ایسا کرنے سے جسٹس منصور خود ایکسپوز ہو گئے۔
انصار کہتے ییں کی بہت اچھا ہو کہ نئے چیف جسٹس اعلیٰ عدلیہ میں اس رجحان کے خاتمے کیلئے کوئی اقدام اُٹھائیں اور ایسے خطوط کو لکھ کر اُنہیں میڈیا کو لیک کرنے پر فوری پابندی لگائیں۔ آپس کے اختلافات کوبند کمرے میں آپس میں بیٹھ کر حل کریں بجائے اس کے کہ دنیا بھر کے سامنے اپنا ہی تماشہ بنواتے رہیں۔ کچھ عرصہ سے ہماری اعلیٰ عدلیہ خصوصاً سپریم کورٹ بہت بُری طرح سے تقسیم ہے۔ جج سیاست دانوں سے زیادہ سیاسی بن چکےہیں۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا یہ بھی چیلنج ہو گا کہ وہ کس طرح ججوں کو سیاست سے پاک کرتے ہیں۔ جس نے سیاست کرنی ہے وہ جج کے عہدے سے استعفیٰ دے اور کھل کر سیاست کر لے۔ نئے چیف جسٹس کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہماری عدالتوں میں منصفوں کی جگہ کوئی سیاستدان نہ بیٹھا ہو۔