بشریٰ اور ان کے تلنگے ساتھی انقلاب لانے کی بجائے فرار کیوں ہو گئے؟
معروف صحافی نصرت جاوید نے اسلام آباد کے ڈی چوک سے بشری بی بی اور ان کے انقلابی ساتھیوں کے فرار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک مرتبہ پھر ثابت ہو گیا کہ تلنگے کبھی انقلاب نہیں لایا کرتے۔ انکا کہنا ہے کہ تاریخ ہمیشہ جیتنے والی قوتوں نے لکھی ہے۔ تاریخ نے ”درست راہ“ کبھی دکھائی نہیں اور تاریخ ہی نے بتایا ہے کہ ”تلنگے“ انقلاب نہیں لایا کرتے بلکہ جابر قوتوں کو مزید جابر بنا دیتے ہیں۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ عاشقان عمران خان ان دنوں اس مشتعل شخص جیسا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں جو گدھے سے گرنے کا ذمہ دار کمہار کو ٹھہرا دیتا ہے۔ ”انقلاب“ برپا کرنے کی خاطر ان عاشقان کو 24 نومبر کو اسلام آباد بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور لائے تھے۔ پنجاب کی حدود میں داخل ہوتے ہی ”کارروان انقلاب“ کا یہاں کی ”پلس“ سے مقابلہ شروع ہوگیا۔ میرے اور آپ کے دیے ٹیکسوں سے خریدے پنجاب کی پولیس نے پشاور سے آئے قافلے پر آنسو گیس کے شیل پھینکے تو کارروان میں گھسے صوبہ خیبر پختونخواہ کے پولیس اہلکاروں نے بھی جوابی شیلنگ کی۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہوئے بالآخر علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی اسلام آباد میں داخل ہو گئے۔ یہاں داخلے کے بعد ان کی منزل ریڈزون میں واقع ڈی چوک تھی۔
نصرت جاوید بتاتے ہیں کہ ڈی چوک وہ مقام ہے جو ریاست اور حکومت پاکستان کی نمائندہ عمارتوں مثلاً پارلیمان، سپریم کورٹ اور ایوان صدر کے عین سامنے ہے۔ مظاہرین اس مقام پر جمع ہوکر درحقیقت ریاست وحکومت پاکستان کو للکارتے ہیں۔ 24 نومبر کی رات سے اسلام آباد داخلے کی کاوشوں میں مبتلا ہجوم کو یہاں پہنچ کر اس وقت تک دھرنا دیے رکھنا تھا جب تک ان کے قائد عمران خان کو اڈیالہ سے رہا نہیں کیا جاتا۔ ریاستی قوت کو مختصراََ نیچا دکھانا مقصود تھا۔
پاکستان جیسے ملکوں میں اقتدار سے محروم ہوئے سیاستدانوں کی گرفتاری ان کے چاہنے والوں نے کبھی بھی واجب و جائز نہیں سمجھی۔ اسی طرح حکومتیں بھی مقبول سیاستدانوں سے خوف کھاتی ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ایسے سیاستدانوں کو جائز و ناجائز مقدمات کی بدولت زیادہ سے زیادہ عرصہ تک جیل میں رکھا جائے۔ ہمارے کئی سیاستدانوں نے محض مقبول ہونے کے جرم میں اپنی زندگیاں جیلوں کی نذر کردیں۔ انہیں اگرچہ دورِ حاضر کے انقلابی بھول بھال چکے ہیں۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کی اپنی حکومتوں کے جابرانہ رویے کا شاہد ہونے کے باوجود میں اصرار کرتا رہا کہ عاشقان عمران کے انتہائی جذباتی ہجوم کو اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچا کر بھی ریاست کو جھکایا نہیں جاسکتا۔ میرا موقف تھا کہ ہجوم سے دب جانے کے بجائے ریاست بلکہ ہجوم کے ”زعم“ کو مزید جبر سے کچلنے کو مصر ہو جاتی ہے۔
بقول نصرت، جب میں نے اس سوچ کا اظہار لکھ کر سوشل میڈیا پر کیا تو عاشقان عمران کا غول میرے خلاف مغلظات سے بھری واہی تباہی بکنے لگا۔ میرا بنیادی گناہ یہ ٹھہرایا گیا کہ میں ”بڈھا“ ہو گیا ہوں اور مجھے اپنے فرسودہ اور شکست خوردہ خیالات دہراتے رہنے کے بجائے ریٹائر ہوجانا چاہیے۔ جب سوشل میڈیا پر چھائے دو نمبر انقلابیوں کا غول مجھے ریٹائر ہونے پر مجبور نہ کر پایا تو نہایت رعونت سے بتانا شروع ہو گیا کہ میں تاریخ کی ”غلط سمت“ کھڑا ہوں۔ تاریخ کی غلط سمت ”کھڑا ہونا“ اپنے تئیں ایک فیشن ایبل مگر فرسودہ تصور ہے۔ مجھ بدنصیب نے جتنی تاریخ پڑھی ہے اس میں تاریخ بذاتِ خود مظلوم نہیں بلکہ ہمیشہ ظالم کے ساتھ کھڑی نظر آئی۔
نصرت جاوید بتاتے ہیں کہ جب میں سکول میں ہوتا تھا تب ہمیں نصاب میں جنگ پلاسی پڑھائی جاتی تھی۔ انگریزوں نے یہ جنگ بنگال کے نواب سراج الدولہ پر مسلط کی تھی۔ ہمیں یہ بھی پڑھایا گیا کہ اپنی دھرتی کو سامراج کی غلامی سے آزاد رکھنے کے لیے ڈٹے نواب سراج الدولہ کو انگریز محض اس وجہ سے شکست دے پائے کہ اس کا آرمی چیف میر جعفر ”غدار“ بن کر دشمنوں سے مل گیا تھا۔ نصرت جاوید کہتے ہیں کہ اسکے 100 برس بعد 1857 میں جو کچھ ہوا انگریز اسے ”غدر“ اور ہم اسے ”جنگ آزادی“ قرار دیتے ہیں۔
جھانسی کی رانی بننے کی خواہش مند بشری بی بی فرار کیوں ہوئیں؟
نصرت جاوید کے بقول انگریزوں کے خلاف ”جنگ آزادی“ لڑنے جو ”مجاہدین“ 1857 کی جنگ کے دوران مختلف شہروں سے دہلی میں گھس آئے تھے انہیں وہاں کے رہائشیوں نے ”تلنگے“ پکارنا شروع کر دیا۔ یہ تلنگے کسی بھی گھر یا دوکان میں گھس کر اپنی جدوجہد کا ”خراج“ وصول کرنا شروع ہلکر دیتے تھے۔ ان کے خوف سے مرزا غالب اپنے گھر میں محصور ہو گئے۔ وہ خوش نصیب تھے کہ جس علاقے میں رہتے تھے وہاں مہاراجہ پٹیالہ کئی عمارتوں کا مالک تھا۔ ان کی نگہبانی کے لئے اس نے اپنے ہاں سے ”مشٹنڈے“ بھیج رکھے تھے۔ لہٰذا ”غالب“ ان کی وجہ سے محفوظ رہے۔ گھر سے نکل کر تاریخ کی ”درست سمت“ کھڑے ہونے کی بجائے وہ گھر بیٹھے ہی دوستوں کو چٹھیاں لکھتے رہے۔ ان کے لکھے خطوط پڑھنے کی بدولت ہی یہ قلم گھسیٹ اردو کے ایک دو فقرے لکھنے کے قابل ہوا ہے۔ کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ غالب جوش میں اپنا گھر بار چھوڑ کر تلنگوں کے ساتھ ”تاریخ کی درست سمت“ کھڑے ہو جاتے تو مجھ جیسے سینکڑوں افراد اردو میں چند فقرے لکھنے کے قابل بھی ہوتے یا نہیں۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ ”تاریخ“ ہمیشہ جیتنے والی قوتوں نے لکھی ہے۔ اس نے ”درست راہ“ کبھی نہیں دکھائی اور تاریخ ہی نے بتایا ہے کہ ”تلنگے“ انقلاب نہیں لایا کرتے بلکہ وہ جابر قوتوں کو مزید جابر بنا دیتے ہیں۔