بشریٰ بی بی کا تحریک انصاف پر قبضے کا خواب کیسے چور چور ہوا؟
پی ٹی آئی کی احتجاج کی فائنل کال کی ناکامی کے بعد سے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی اپنوں اوربیگانوں کے نشانے پر ہیں۔ جہاں ایک طرف تحریک انصاف کے مرکزی رہنما ٹی وی چینلز پر انھیں ہدف تنقید بنا رہے ہیں وہیں متعدد پارٹی رہنما اسلام آباد احتجاج کے دوران ان کے کردار کے حوالے سے بھی اعتراضات اٹھا رہے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کی سیاسی اور کور کمیٹی نے بھی ڈی چوک پر ناکام احتجاج اور عمران خان کی مشکلات میں اضافے کی بنیادی وجہ بشری بی بی کو قرار دے دیا ہے۔ جس کے بعد جہاں انھیں پارٹی امور میں مداخلت سے روک دیا گیا ہے وہیں ان کے پی ٹی آئی کے احتجاجی جلسے جلوسوں میں شرکت پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے جس کے بعد پنکی پیرنی کا پی ٹی آئی پر قبضے کا خواب بکھرتا دکھائی دیتا ہے۔
پی ٹی آئی کے احتجاج کے بعد سے سماجی رابطوں کے پلیٹ فامز پر بھی سب سے زیادہ تنقید بشریٰ بی بی پر ہی کی جا رہی ہے۔
خیال رہے کہ فائنل کال کے دوران یہ پہلی مرتبہ تھا کہ بشریٰ بی بی پی ٹی آئی کے کسی احتجاج میں شریک ہوئیں، جبکہ اس سے قبل پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے ہمیشہ یہی دعوی کیا جاتا رہا کہ بشری بی بی غیر سیاسی گھریلو خاتون ہیں۔ تاہم اب اس دعوے کی قلعی عمران خان کی یک بہن روبینہ خان نےکھول دی ہے۔
اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہاکہ بشریٰ بی بی کا سیاست میں کردار کوئی نئی بات نہیں، پنجاب میں جس طرح عثمان بزدار اور فرح گوگی کے ذریعے نظام حکومت چلایا گیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، اور اب مشعال یوسف زئی کو بشریٰ بی بی کی نئی فرح گوگی کہا جارہا ہے۔انہوں نے کہاکہ بشریٰ بی بی جیل میں ہوتے ہوئے بھی مبینہ طور پر مشعال یوسف زئی کے ذریعے سیاست کرتی رہی ہیں، وہ تقرریاں کرنے سمیت دیگر فیصلہ سازی میں شامل ہوتی تھیں۔
روبینہ خان نے کہاکہ بشریٰ بی بی اسلام آباد مارچ کے دوران علی امین گنڈاپور کے ساتھ خطاب اور اعلانات بھی کرتی رہیں۔انہوں نے کہاکہ عمران خان کی بہنوں کا سیاست میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں، وہ اس سے قبل بھی سیاست کا حصہ نہیں تھیں۔عمران خان کی ہمشیرہ نے مزید کہاکہ بہنوں کی کوئی خواہش نہیں ہے کہ حکومتی عہدے حاصل کرکے مال کمایا جائے۔ ہم نے ہمیشہ کہاکہ پرانے پاکستان کی گندگی سے نیا پاکستان نہیں بنایا جاسکتا۔
واضح رہے کہ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر الزام ہے کہ وہ عمران خان کے دور حکومت میں نظام پر اثر انداز رہیں اور پنجاب میں تمام فیصلے ان کی مرضی کے مطابق ہوتے ہیں، اب عمران خان کی جانب سے دی گئی فائنل کال کی ناکامی کا ذمہ دار بھی انہیں قرار دیا جاتا ہے کیونکہ بانی پی ٹی آئی سنگجانی میں دھرنا دینے پر راضی ہوگئے تھے لیکن بشریٰ بی بی نے کہاکہ وہ ہر صورت ڈی چوک جائیں گی۔ جس کے بعد جہاں پارٹی عمران خان کو کسی قسم کا ریلیف دلانے میں یکسر ناکام رہی بلکہ پارٹی کو احتجاج کی ناکامی پر سبکی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
تاہم یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ احتجاج کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے بعد ہر جانب سے خصوصا پارٹی رہنماؤں کی جانب سے بشریٰ بی بی کو کیوں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ اس حوالے سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ بشریٰ بی بی کی وجہ سے پی ٹی آئی دو حصوں میں تقسیم ہوئی اور احتجاج کے بعد سے بشریٰ بی بی تنقید کی زد میں ہیں۔‘ ’کئی پی ٹی آئی رہنماؤں کے مطابق 26 نمبر چونگی پر پہنچ کر علی امین نے بشریٰ بی بی کو مزید آگے نہ جانے سے متعلق سمجھایا۔ لیکن وہ نہیں مان رہی تھیں اور بضد تھیں کہ عمران خان کا حکم پورا کیا جائے۔‘ ’بشریٰ بی بی نے وہاں موجود پارٹی رہنماؤں کو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہ تو ڈی چوک جا رہی ہیں۔ آپ فیصلہ کریں کہ میرے ساتھ جانا ہے یا نہیں۔‘ جس کے بعد پی ٹی آئی قیادت نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔
مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کا ارادہ اسلام آباد کے کسی قریبی علاقے میں دو یا تین دن دھرنا دینے کا تھا۔ ’لیکن بشریٰ بی بی ڈی چوک جانے پر بضد تھیں اور مرکزی قیادت کی بات نہیں مان رہی تھیں۔‘ تجزیہ کاروں کے مطابق ’پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت نے کارکنوں کو تو ڈی چوک کا بتایا تھا لیکن حکومت سے کوئی درمیانی راستہ ملنے کی امید میں مذاکرات بھی ہو رہے تھے۔‘ ان کے خیال میں پی ٹی آئی قیادت کو یہ بخوبی اندازہ تھا کہ احتجاج سے عمران خان رہا نہیں ہو سکتے۔’لیکن اس سے آگے ان کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں تھی۔ وفاقی حکومت دھرنے کے لیے کوئی جگہ دے بھی دیتی تو کوئی انتظامات نہیں تھے۔‘ مبصرین کے مطابق احتجاج کھ دوران سیاسی حکمت عملی کے فقدان اور بشری بی بی کے آمرانہ فیصلوں کی وجہ سے پی ٹی آئی کی فائنل احتجاج کی کال مس کال ثابت ہوئی تاہم اب اس کا سارا بوجھ پنکی پیرنی کے کندھوں پر ڈال دیا گیا ہے۔