دھمکی کے بعد کپتان نے امریکیوں کوOIC اجلاس میں کیوں بلایا؟
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ایک مبینہ امریکی دھمکی پر مبنی خط سامنے لانے کے بعد طاقتور حلقوں کی جانب سے ان سے یہ سوال پوچھا گیا ہے کہ اگر یہ خط واقعی دھمکی پر مبنی تھا اور 8 مارچ کو ان کے علم میں آ چکا تھا تو پھر ان کی حکومت نے اسلام آباد میں 22 مارچ کی اسلامی سربراہی کانفرنس میں امریکہ کی انڈر سیکرٹری آف سٹیٹ عذرا ضیا کو کیوں بلایا تھا؟ یہ سوال بھی پوچھا جارہا ہے کہ اگر یہ خط 7 مارچ کو مل چکا تھا تو پھر اسے 27 مارچ تک خفیہ کیوں رکھا گیا، یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ جب امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ اپنے وفد کے ہمراہ اسلام آباد پہنچیں اور شاہ محمود قریشی سے علیحدہ ملاقات بھی کی تو تب اس دھمکی آمیز خط کو زیر بحث کیوں نہیں لایا گیا؟
خیال رہے کہ بقول وزیراعظم دھمکی آمیز خط انہیں 7 مارچ کو موصول ہوا جبکہ اپوزیشن اتحاد نے انکے خلاف تحریک عدم اعتماد 8 مارچ کو داخل کی، لہٰذا اپوزیشن بیرونی طاقتوں کے ساتھ مل کر ان کی حکومت ختم کرنا چاہتی ہے۔ 27 مارچ کو پریڈ گراؤنڈ اسلام آباد کے جلسے میں عمران خان نے یہ تاثر دیا تھا کہ یہ خط کسی غیر ملکی سفیر کی جانب سے آیا ہے جس میں واضح طور پر انہیں دھمکی دی گئی ہے۔ بعد ازاں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس میں دعوی کیا کہ اس خط میں باقاعدہ طور پر لکھا گیا ہے کہ اگر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوتی ہے تو پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔
تاہم 30 مارچ کو وزیر اعظم نے اپنے سابقہ موقف سے یو ٹرن لیتے ہوئے بتایا کہ یہ خط کسی غیر ملک کی جانب سے نہیں لکھا گیا۔ پھر یہ انکشاف ہوا کہ یہ خط سابق پاکستانی سفیر اسد مجید خان نے لکھا ہے جو چند ماہ پہلے تک امریکا میں پاکستانی سفیر تھے۔
ان کی جگہ آزاد کشمیر کے سابق صدر مسعود احمد خان کو واشنگٹن میں نیا سفیر تعینات کیا گیا تھا۔ اسلام آباد میں سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ واشنگٹن میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید نے امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ برائے جنوبی ایشیا ڈونلڈ لیو سے ملاقات کے بعد دفتر خارجہ کو ایک خفیہ مراسلہ بھیجا تھا جسے دفتر خارجہ کے قواعد و ضوابط کے مطابق کابینہ سے شئیر کرنے کے بعد آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سیل کیا جا چکا ہے۔
دھمکی آمیز خط امریکہ میں سابق سفیراسد مجید نے بھیجا
اس مراسلے میں انہوں نے امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ کے ساتھ ملاقات کی روشنی میں پاکستان امریکہ تعلقات بارے اپنی رائے قلم بند کی تھی۔ ذرائع کے مطابق اس خط میں کوئی دھمکی تو موجود نہیں تاہم اسد مجید خان نے یہ تاثر دیا ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں پاکستان میں سیاسی تبدیلی آتی ہے تو امریکہ کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم تحریک عدم اعتماد میں اپنی یقینی شکست دیکھتے ہوئے اب اپنی حکومت گرانے کی سازش کا الزام امریکہ پر عائد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ سیاسی شہید کا درجہ حاصل کر سکیں۔ انکا یہ بھی کہنا ہے کہ اسی وجہ سے امریکی صدر جو بائیڈن نے برسراقتدار آنے کے بعد ان سے سے ایک مرتبہ بھی رابطہ نہیں کیا۔ لیکن اب طاقتور حلقوں کی جانب سے عمران خان سے یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ اگر پاکستانی سفیر کی جانب سے لکھا گیا خط واقعی مارچ کو ان کے نوٹس میں آ چکا تھا تو پھر انہوں نے 27 مارچ تک اس بارے کوئی بات کیوں نہیں کی۔
یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ اگر وزیراعظم واقعی یہ سمجھتے تھے کہ انہیں امریکہ کی جانب سے دھمکی دی گئی ہے اور وہ واشنگٹن سے اتنی ہی نالاں تھے تو پھر انہوں نے 22 مارچ کے او آئی سی اجلاس میں امریکہ کی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ برائے سول ڈیفنس اینڈ ڈیمو کریسی عذرا ضیا کو شرکت کی خصوصی دعوت کیوں دی تھی، حالانکہ امریکہ کا او آئی سی سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ بتایا جاتا ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ کو خصوصی طور پر او آئی سی اجلاس میں شرکت کے لیے بلایا اور پھر ان کے وفد کے ساتھ ایک علیحدہ ملاقات بھی کی جس کی تصاویر بھی سامنے آ چکی ہیں۔ تاہم اس اجلاس میں دھمکی آمیز خط کا معاملہ زیر بحث نہیں لایا گیا جو کہ حیران کن ہے۔
Why did captain call the Americans in OIC meeting ? | video in Urdu