سویلین ہونے کے باوجود عمران کا فوجی ٹرائل سے بچنا ممکن کیوں نہیں؟

تحریک انصاف کے سوشل میڈیا بریگیڈ کی جانب سے سانحہ 9 مئی کے 25 ملزمان کو فوجی عدالتوں سے سزاؤں کے خلاف بھرپور مہم چلائے جانے کے بعد یورپی یونین اور برطانیہ نے ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جب عمران خان دور میں فوجی عدالتیں عام شہریوں کو سزائیں سناتی تھیں تو یورپی یونین اور برطانیہ دونوں خاموش رہتے تھے۔ یورپی یونین اور برطانیہ نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ پاکستانی قوانین کے مطابق فوجی عدالتوں کو سویلینز کے ملٹری ٹرائل کا اختیار حاصل نہیں۔

یورپی یونین اور برطانیہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں سے عام شہریوں کو سزا دینے کا عمل ‘شہری اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے’ سے متصادم ہے۔ پاکستان بھی اس معاہدے پر عمل کرنے کے لیے دستخط کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی وزارت عظمی کے دوران بھی کئی سویلینز کو ملٹری عدالتوں کی جانب سے سزائیں سنائی گئیں اور حکومت نے ان کا دفاع کیا۔

دسمبر 2021 میں عمران خان کے دور حکومت میں انسانی حقوق کے معروف کارکن ادریس خٹک کو بھی سویلین ہونے کے باوجود کورٹ مارشل کے بعد سزا سنائی گئی تھی جو ابھی تک قید ہیں۔ ادریس خٹک اور تین سینئر فوجی افسران کو کچھ غیر ملکی ایجنسیوں کو سرکاری راز فراہم کرنے کے الزام پر کورٹ مارشل کے بعد 10 سے 14 برس تک کی با مشقت قید کی سزائیں سنائی گئی تھیں، حالانکہ سرکاری راز فراہم کرنے کا جرم فوج میں بغاوت کے جرم سے بہت چھوٹا ہے۔

ادریس خٹک نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ ان کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا چونکہ وہ سویلین ہیں، لیکن فوج اور حکومت کا موقف یہ تھا کہ وہ غیر ملکی ایجنسیوں کو سرکاری راز فراہم کرنے کے جرم میں تین فوجی افسران کے ساتھ شریک تھے لہذا ان کا کورٹ مارشل قانون کے مطابق ہے۔ چنانچہ ایک سویلین عدالت نے ادریس موقف کا موقف مسترد کرتے ہوئے ان کے کورٹ مارشل کی اجازت دے دی جس کے بعد ان کو 14 سال قید کی سزا سنائی گئی اور قید کاٹنے کے لیے ڈسٹرکٹ جیل جہلم منتقل کر دیا گیا۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سابق آئی ایس آئی چیف فیض حمید کو 9 مئی 2023 کو فوجی تنصیبات پر حملوں کی سازش تیار کرنے کے الزام کا سامنا کرنا پڑا تو پھر عمران خان کا کورٹ مارشل بھی یقینی ہو جائے گا کیونکہ انکا ٹرائل بھی ایسے سویلین کے طور پر ہو گا جس نے فوجی افسران کے ساتھ مل کر فوج میں بغاوت کی سازش کی۔

یاد رہے کہ ادریس خٹک کے ساتھ جن تین سینئر فوجی افسران کا کورٹ مارشل کیا گیا ان میں لیفٹیننٹ کرنل فیض رسول کو 14 برس قید کی سزا سنائی گئی، لیفٹیننٹ کرنل اکمل کو 10 برس قید جبکہ میجر ریٹائرڈ سیف اللہ کو 12 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان تینوں فوجی افسران کو کورٹ مارشل کے بعد سزا کاٹنے کے لیے اڈیالہ جیل راولپنڈی منتقل کر دیا گیا تھا۔ تینوں فوجی افسران اور ادریس خٹک نے مبینہ طور پر غیر ملکی ایجنسیوں کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں غلط ٹارگٹس بارے معلومات فراہم کیں جنکی بنیاد پر ہونے والے ڈرون حملوں میں درجنوں معصوم پشتون مارے گے۔ تاہم کورٹ مارشل کی کارروائی کے دوران چاروں گرفتار ملزمان نے خود پر لگائے جانے والے الزامات کو سختی سے رد کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ پاکستانی قبائلی علاقوں میں ڈرون آپریشنز امریکی سی آئی اے نے آئی ایس آئی کے ساتھ مل کر کئے تھے جن کا بنیادی مقصد پاکستانی دشمن طالبان جنگجوؤں کو نشانہ بنانا تھا۔

اس سے پہلے انسانی حقوق کے کارکن ادریس خٹک نے اپنی گرفتاری کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور یہ موقف اختیار کیا تھا کہ ان پر لگائے گے الزامات جھوٹ پر مبنی ہیں اور فوجی عدالتوں کے خاتمے کے بعد کوئی ملٹری کورٹ کسی بھی سویلین کا کورٹ مارشل نہیں کر سکتی۔ دفاعی اداروں نے ادریس خٹک پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے برطانیہ کی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس کے ایک اہلکار کو پاکستان میں ڈرون کارروائیوں سے متعلق ‘سرکاری راز’ فراہم کیے جس سے بے گناہ پاکستانی حملوں میں مارے گئے۔ تاہم ادریس خٹک کے بھائی کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قیصر راشد خان اور جسٹس سید ارشاد علی نے پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کو اپنی کارروائی روکنے کا حکم دینے سے انکار کر دیا تھا۔ چنانچہ کورٹ مارشل کی کارروائی جاری رہی اور پھر دسمبر 2021 میں ادریس خٹک اور تین سینئر فوجی افسران کو قید کی سزا سنا دی گئی۔

یاد رہے کہ انسانی حقوق کے کارکن ادریس خٹک کو 13 نومبر 2019 کو صوابی سے حراست میں لیا گیا تھا جس کے بعد انہیں کئی مہینوں تک گرفتاری ظاہر کیے بغیر حراست میں رکھا گیا۔ بعد میں وزارت دفاع نے پوچھے جانے پر عدالت میں انکشاف کیا کہ ادریس خٹک پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے سیکشن 2 (1) (ڈی) کے تحت فوجی حکام کی تحویل میں ہیں جسے سرکاری راز ایکٹ 1923 کے سیکشن 3 کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔

سرکاری رازداری ایکٹ کے تحت ادریس خٹک پر آٹھ الزامات عائد کیے گئے اور یہ کہا گیا کہ وہ ایم آئی 6 کے عہدیدار مائیکل سیمپل سے 2009 میں مختلف تاریخوں پر خفیہ بات چیت کر رہے تھے۔ اس دوران انہوں نے مائیکل کو باجوڑ، سوات اور جنوبی وزیرستان سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں ڈرون کارروائیوں کرنے کے لیے معلومات فراہم کرتے تھے۔ تاہم ادریس خٹک کے وکلاء نے الزامات کو مسترد کیا تھا۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عبد الطیف آفریدی، ساجد آفریدی اور طارق افغان سمیت وکلا کا ایک پینل درخواست گزار کے لیے پشاور ہوئی کورٹ میں پیش ہوا اور مؤقف اختیار کیا کہ زیر حراست فرد ایک شہری ہے جس نے نہ تو مسلح افواج کے کسی رکن کے ساتھ مل کر کوئی جرم کیا ہے اور نہ ہی وہ آرمی ایکٹ کے تابع تھا لہذا اس پر فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے ذریعے کیس غیر قانونی ہے۔ وکلا نے اصرار کیا کہ زیر حراست شخص کے خلاف الزامات سرکاری رازوں کے انکشاف کے مترادف نہیں ہیں۔ ان کا مؤقف تھا کہ خٹک کے خلاف مقدمہ بدنیتی پر مبنی ہے کیونکہ ایم آئی 6 کے عہدیدار مائیکل سیمپل تو خود پاکستانی فوج کے ایک ریٹائرڈ جنرل کے داماد ہیں اور ملک میں موجود ہونے کے باوجود ان کے اپنے خلاف پاکستان کے سرکاری راز خریدنے کا کوئی مقدمہ نہیں بنایا گیا۔

دوسری جانب ڈپٹی اٹارنی جنرل عامر جاوید نے پی ٹی آئی حکومت کے جانب سے پیش ہوتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا فوجی ایکٹ کے تحت خصوصی دائرہ اختیار ہے جس میں نہ صرف فوجی اہلکار بلکہ ان تمام افراد کا احاطہ کیا جا سکتا ہے جو اس ایکٹ کے تابع ہیں۔ چنانچہ پشاور ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ سنایا تھا کہ ادریس خٹک سمیت زیر حراست افراد پر سرکاری راز ایکٹ اور آرمی ایکٹ کے تحت الزامات عائد کیے گئے تھے لہٰذا فیلڈ جنرل کورٹ مارشل زیر حراست ملزم کا ٹرائل کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔

عاصم منیر اور عمران خان کے ٹکراؤ کا بالآخر کیا نتیجہ نکلے گا؟

ایسے میں قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر فوجی حکام 9 مئی 2023 کو عسکری تنصیبات پر حملوں کی سازش کے الزام میں عمران خان پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو یہ نہ تو کوئی انوکھی بات ہو گی اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی قانونی رکاوٹ ہو گی۔

Back to top button