عمران نے دہشتگردوں کو پاکستانی شہریت دینے کا مطالبہ کیوں کیا ؟

سینئر صحافی شکیل انجم کا کہنا ہے کہ اپنے دور حکومت میں بیرونی ایجنڈے کے تحت 42ہزار دہشتگردوں کو پاکستان میں آباد کرنے والے عمران خان کا تازہ مطالبہ یہ ہے کہ ان دہشتگردوں کو پاکستانی شہریت دی جائے تاکہ ان کی عسکری طاقت میں اضافہ ہو اور وہ پاکستان کا وجود دنیا کے نقشے سے مٹانے میں کامیاب ہو سکیں۔ شکیل انجم کے بقول عمران خان کئی بار اپنی اس خواہش کا برملا اظہار کر چکے ہیں کہ پاکستان تین ٹکڑوں میں بٹے گا۔شاید عمران خان پاکستان کے تیسرے ٹکڑے کی آس لگائے ’’را‘‘ کے’’خصوصی ایلچی‘‘ کے طور پر بلوچستان کے حالات سے خوش ہوں گے جس کی عکاسی کرتے ہوئے تاحال عمران خان نے بلوچستان میں ٹرین حادثے کی تاحال مذمت تک  نہیں کی بلکہ پارٹی کو جعفر ایکسپریس کے واقعہ پر کسی قسم کی مذمت کرنے یا اسے کسی بھی انداز میں زیر بحث لانے سے بھی منع کر دیا ہے۔

مبصرین کے مطابق اقتدار کی ہوس اور شہباز حکومت کی مخالفت میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ان کے حواری ریاست دشمنی پر اتر آئے ہیں۔ سینئر صحافی شکیل انجم کے مطابق بانی پی-ٹی-آئی عمران خان کے بارے میں ایک مضبوط تاثر قائم ہو چکا ہے کہ بیرونی ایجنڈے کے تحت ریاست دشمنی ان کی سیاست کا پہلا مقصد بن چکا ہے اور وہ اپنے اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے اپنے قریب ترین ساتھیوں کو بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں شکیل انجم کا مزید کہنا ہے کہ عمران خان رہاست دشمنی میں اس حد تک آگے جا چکے ہیں کہ وہ پارٹی کے صرف اسی لیڈر یا کارکن کو حقیقی دوست مانتے ہیں جو ان کا ہر حکم بجا لائے اور ریاست دشمنی پر یقین رکھتا ہو۔ اس لئے اس وقت تحریک انصاف کا کوئی ایک لیڈر ایسا نہیں جو عمران خان کی ریاست دشمن پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لئے اپنا حصہ نہ ڈالتا ہو۔

شکیل انجم کے مطابق بلوچستان میں حالیہ شورش انڈیا کی برسوں کی سازشوں اور کوششوں کا نتیجہ ہے جس کا باقاعدہ آغاز بی-ایل-اے کے دہشتگردوں کی جانب سے جعفر ایکسپریس کے اغواء اور مسافروں کے قتل عام سے ہوا جس میں بھارتی خفیہ ایجنسی را اور ٹی-ٹی-پی کی معاونت شامل تھی۔ شکیل انجم کا مزید کہنا ہے کہ اگرچہ بلوچستان میں شورش برپا کرنے کی کامیاب ابتداء تو اسی وقت ہو گئی تھی جب’’را‘‘ نے ماہرنگ لانگہو کو بلوچستان میں پلانٹ کیا تھا جس نے ہر سطح پر پاکستان دشمنی میں اپنی ’’صلاحیتوں‘‘ کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو اس’’منصب‘‘ کا اہل ثابت کیا۔ شکیل انجم کے مطابق ایک طرف تو حکومت پاکستان ملک سے دہشتگردی کی روک تھام اور ملک میں امن قائم کرنے کی پالیسی کے تحت افغان مہاجرین کے بھیس میں پورے ملک میں پھیلے ہوئے دہشتگردوں کو افغانستان واپس بھیجنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور فوج ہر محاذ پر دہشتگردوں کے خلاف برسرپیکار ہے جبکہ دوسری طرف تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے پارٹی قائد کی ترجمانی کرتے ہوئے ریاست کی وفاق کی اس پالیسی کی کھل کر مخالفت کرتے ہوئے پاکستان میں موجود تمام افغان باشندوں کو پاکستانی شہریت دینے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ وزیر اعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی جانب سے اس مرحلے پر جب پاکستان دہشتگردی کے خلاف برسرپیکار ہے ایسا مطالبہ سمجھ سے بالا تر ہے۔

شکیل انجم کے مطابق ملک میں حالیہ دہشتگردی کی لہر کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں انڈین دہشتگرد تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی یعنی بی-ایل-اے کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے پیچھے اندرونی اور بیرونی قوتیں کھلے عام ملوث پائی گئی ہیں جس کے سینکڑوں نہیں، ہزاروں ناقابل تردید شواہد سامنے آ چکے ہیں۔ اس ضمن میں وفاقی حکومت نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے علاوہ عسکری قیادت کو بھی دعوت دی گئی لیکن تحریک انصاف نے اس انتہائی اہم قومی کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا۔بالفاظ دیگر پی ٹی آئی نے اس قومی کانفرنس میں شرکت سے انکار کر کے حقیقت میں پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث شرپسندوں کی حمایت کی ہے۔ شکیل انجم کے مطابق کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں نے دہشتگردی کے خاتمے کے لئے پارٹی پالیسی کے مطابق مشورے دئیے جبکہ عسکری قیادت نے دہشتگردی کے حوالے سے شرکا کو بریفنگ دی۔ آرمی چیف نے قرار دیا کہ ملکی سلامتی سے بڑھ کر کوئی ایجنڈا نہیں ہونا چاہئے اور ریاست کو شرپسندوں کے حوالے سے نرم نہیں سخت گیر ہونا چاہئے، کب تک گورننس کا خلاء فوج اور شہداء کے خون سے پر کیا جاتا رہے گا؟ اجلاس کے اختتام پر پی-ٹی-آئی اور اس کی اتحادی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے بائیکاٹ کی مذمت کی گئی لیکن عمران خان نے اپنے ایک پیغام میں بائیکاٹ کے فیصلے کی حمایت اور تعریف کی۔

شہباز حکومت کو فارغ ہونے کے بعد کن زیادتیوں کا حساب دینا ہے ؟

شکیل انجم کا مزید کہنا ہے کہ ایک طرف پی ٹی آئی نے ریاستی مفادات کے برخلاف عمران خان کی پیروی کرتے ہوئے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت سے انکار کیا جبکہ دوسری جانب جنگ، جیو اور نیوز کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن جناب انصار عباسی نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ریاست اور حساس ریاستی اداروں کی اعلیٰ شخصیات کے خلاف عالمی سطح پر زہریلی مہم والے تینوں اکاؤنٹس کا براہ راست تعلق عمران خان کے ساتھ ہے اور یہ تینوں اکاؤنٹس عمران خان کے آفیشل اکاؤنٹس ہیں جو بیرون ملک سے چلائے جاتے تھے اور جنہیں جبران الیاس، اظہر مشوانی اور علی ملک ہینڈل کرتے تھے۔ طریقۂ واردات یہ تھا کہ عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان جب عمران خان سے ملاقات کرنے جیل جاتیں تو عمران خان انہیں ریاست اور فوج مخالف پروپیگنڈا بارے X مٹیرئل کی تحریر مہیا کرتے جو علیمہ خان ان تینوں وی لاگرز کو فارورڈ کر دیتی تھیں۔ شکیل انجم کے مطابق حکومت کی جانب سے آئی جی اسلام آباد کی سربراہی میں قائم کی گئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم پہلے سے ہی ریاست کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف تحقیقات میں مصروف ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ شواہد کی موجودگی میں عمران خان اور ان کی ہمشیرہ کے خلاف کیا کارروائی کی جاتی ہے؟

Back to top button