100 ارب روپے مالیت کی PIA کی بولی صرف 10 ارب روپے کیوں لگی؟

وفاقی حکومت کی جانب سے خسارے میں ڈوبی ہوئی پی آئی اے کی نجکاری کی کوشش بری طرح ناکام ہو گئی ہے اور ایئر لائن کو خریدنے کے لیے صرف 10 ارب روپے کی ایک ہی بولی لگ پائی۔ چنانچہ 10 ارب روپے کی پیشکش مسترد کرتے ہوئے پرائیویٹائزیشن کا عمل موخر کر دیا گیا ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف 19 ارب روپے کی بولی پی آئی اے کی نجکاری کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ مستقبل میں کوئی بھی خریدار اس سے زیادہ کی بولی نہیں لگائے گا حالانکہ اس کی مارکیٹ ویلیو سو ارب روپے سے زائد ہے۔

یاد رہے کہ ریئل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ کمپنی ’بلیو ورلڈ‘ نے اسلام آباد میں پی آئی اے کی نجکاری کے لیے 85 ارب روپے کی کم از کم متوقع قیمت کے مقابلے میں صرف 10 ارب روپے کی بولی جمع کرائی، یعنی محض ساڑھے آٹھ فیصد۔

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز ایک پبلک لمیٹڈ کمپنی ہے جس کے سرمائے کا تقریباً 96 فیصد حصہ حکومت کے پاس ہے۔ بلیو ورلڈ سٹی کی جانب سے پی آئی اے کو خریدنے کے لیے 10 ارب کی بولی کا جائزہ وفاقی کابینہ لے گی لیکن اصولی طور پر اس بولی کو مسترد کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ نجکاری کمیشن نے ابتدائی طور پر چھ بولی دہندگان کو اہل قرار دیا تھا تاہم ان میں سے پانچ اس عمل سے دور رہے۔ حکومت نے ایئر بلیو لمیٹڈ، عارف حبیب کارپوریشن لمیٹڈ، ایئر عربیہ کی فلائی جناح، وائی بی ہولڈنگز پرائیویٹ، پاک ایتھنول پرائیویٹ اور بلیو ورلڈ سٹی کو قومی ایئرلائنز میں اکثریتی حصص کے لیے شارٹ لسٹ کیا تھا۔

بولی میں شامل نہ ہونے والے تین گروپس کے عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انھیں مستقبل میں حکومت کے اس معاہدے پر پورا اترنے کی صلاحیت کے بارے میں خدشات ہیں۔

یاد رہے کہ پی آئی اے مسلسل کئی برسوں سے خسارے کا شکار ہے اور اس کا شمار حکومتی سرپرستی میں چلنے والے ان اداروں میں ہوتا ہے جو قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان پہنچاتے ہیں۔ گذشتہ ادوار میں انتظامی تبدیلیوں کے ذریعے بہتری لانے کی تمام تر کوششوں کے بعد پی آئی اے کی نجکاری کی کئی کوششیں بھی ناکام ہوئی ہیں۔

ماضی میں بھی پاکستان کی قومی ایئر لائن کی نجکاری کے لیے اعلانات ہوئے تاہم ان پر عملدرآمد نہیں ہو سکا تھا۔ پاکستان کے سابق چیئرمین نجکاری کمیشن محمد زبیر نے بتایا تھا کہ نجکاری کرنے کا ایک طریقہ کار ہے جس میں پہلے تو پروفیشنل ورک کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ نجکاری کے تمام مراحل کو پیشہ وارانہ انداز میں طے کیا جائے۔ انھوں نے بتایا کہ جب وہ پاکستان مسلم لیگ ن کے تیسرے دورِ حکومت میں چیئرمین نجکاری کمیشن بنے تو اس کے بعد پی آئی اے کی نجکاری کےلیے تمام پروفیشنل مراحل کو طے کر لیا گیا تھا لیکن سیاسی وجوہات کی بنا پر یہ کام مکمل نہیں ہو سکا۔ ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے اس عمل کی شدید مخالفت کی گئی تھی اور میڈیا میں بھی اس کے خلاف مہم چلائی گئی تھی۔

یاد رہے کہ پی آئی اے میں اس وقت 7200 مستقل ملازمین کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے ملازمین بھی اس ایئرلائن کا حصہ ہیں۔ نجکاری کمیشن سے پی آئی اے کے ملازمین اور اس کے اثاثوں کے بارے میں پوچھا گیا تو اس کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ اظہارِ دلچسپی کے مرحلے کے بعد یہ معاملہ زیرِ بحث آئے گا جس میں اس بات پر غور کیا جائے گا کہ ان ملازمین کو ایئرلائن کا نیا خریدار کم از کم کتنے عرصے تک ملازمت پر رکھنے کا پابند ہوگا۔ ترجمان نے اثاثوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اثاثوں کو علیحدہ کرنے کے بعد کچھ تو ہولڈنگ کمپنی کے پاس چلیں جائیں گے اور کچھ پی آئی اے کے ساتھ فروخت کر دیے جائیں گے۔ ان اثاثوں میں پی آئی اے کے دفاتر اور جائیدادیں شامل ہیں۔

نجکاری امور پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی شہباز رانا کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کے بعد ملازمین کو ایک سے تین سال تک ملازمت پر رکھنے کی تجویز زیرِ غور ہے۔تاہم اس کے بعد انھیں ملازمت سے فارغ کیا جا سکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ ایئرلائن کے فنانشل ایڈوائزر کی جانب سے ایک سال تک ملازمین کو نوکریوں پر رکھنے کی تجویز دی گئی جب کہ سابقہ نگراں حکومت کی جانب سے اس کی مدت تین سال طے کی گئی تھی۔

گنڈاپور کا اسلام آباد پر حملہ کرنے والے ملازمین کےلیے انعام کا اعلان

گذشتہ کئی سال سے پی آئی اے کی جانب سے پیش کی جانے والی سالانہ مالیاتی رپورٹس میں ایئر لائن کے خسارے میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ پی آئی اے کی سالانہ رپورٹ 2022 کے مطابق اُس برس ایئرلائن کا خسارہ 88 ارب روپے تھا۔ پی آئی اے کی جانب سے سال 2023 کے صرف پہلے چھ مہینوں کے مالیاتی نتائج کا اب تک اعلان کیا گیا اور اس کے مطابق ایئر لائن کا ابتدائی چھ مہینوں کا خسارہ 60 ارب رہا تھا۔

ایوی ایشن کے شعبے پر گہری نگاہ رکھنے والے افسر ملک کا کہنا ہے کہ پی آئی اے میں خسارے کا سلسلہ 2004 میں شروع ہوا اور اس کے بعد سے اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کے مطابق حکومت کو پی آئی اے کی نجکاری سے سب سے پہلا فائدہ یہ ہو گا کہ قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کا سلسلہ تھم جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کی نجکاری سے حکومت کو سرمایہ کاروں کی جانب سے سرمایہ حاصل ہوگا جس کی ملک کو اس وقت اشد ضرورت ہے۔

Back to top button