سکیورٹی اہلکار بلوچ قوم پرستوں کے سامنے ہتھیار کیوں ڈالنے لگے؟
بلوچستان میں سیکورٹی اہلکاروں کی جانب سے بغیر مزاحمت کئے عسکریت پسندوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے پے در پے واقعات نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ جس کے بعد حکام نے ایسے عمل کی حوصلہ شکنی کرنے کے لئے سرنڈر کرنے والے اہلکاروں اور افسران کو نشان عبرت بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ذرائع کے مطابق بلوچستان میں پولیس اور لیویز تھانوں اور چوکیوں پر عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافے اور اہلکاروں کی جانب سے بغیر کسی مزاحمت کے سرنڈر کرنے، اسلحہ و سرکاری ساز و سامان عسکریت پسندوں کے حوالے کرنے پر حکام تشویش کا شکار ہیں اور اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی تشکیل دی جا رہی ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کے سامنے مزاحمت نہ کرنے والے اہلکاروں کی فوری برطرفی کا فیصلہ کرتے ہوئے 20 سے زائد اہلکاروں کو برخاست جبکہ ایک اسسٹنٹ کمشنر کو معطل کر دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ بدھ کو بلوچستان کے ضلع گوادر میں نامعلوم مسلح افراد نے کوسٹل ہائی وے پر پولیس اور کسٹم کی چوکیوں پر حملہ کیا، اہلکاروں سے اسلحہ چھین لیا اور چوکیوں کو نذر آتش کر کے فرار ہو گئے تھے۔ ذرائع کے مطابق حملے کے دوران اہلکاروں کی جانب سے کوئی مزاحمت نہیں کی گئی جس پر انہیں نہ صرف اہلکاروں کو ملازمت سے برطرف کیا جا رہا ہے بلکہ ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کر کے انھیں نشان عبرت بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ بلوچستان میں حالیہ دنوں میں لیویز، پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز کے تھانوں اور چیک پوسٹوں پر حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔گزشتہ ایک ماہ کے دوران خضدار، مستونگ، کچھی، کیچ اور گوادر سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں لیویز اور پولیس کے تھانوں اور چیک پوسٹوں پر نصف درجن سے زائد حملے ہو چکے ہیں جن میں کسی مزاحمت کے بغیر حملہ آور لیویز اور پولیس اہلکاروں کا اسلحہ، سرکاری گاڑیاں، موٹرسائیکلیں اور دیگر سامان چھین کر لے گئے۔ان واقعات کے بعد بلوچستان حکومت سر جوڑ کر بیٹھ گئی ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق فوج کے اعلیٰ حکام کی جانب سے بھی اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
صوبائی حکومت کے ذرائع کے مطابق محکمہ داخلہ بلوچستان کی جانب سے تمام ڈپٹی کمشنرز کو واضح ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ عسکریت پسندوں کے سامنے سرنڈر کرنے والوں کو فوری طور پر ملازمتوں سے برطرف کیا جائے۔ جس کے بعد ڈپٹی کمشنر خضدار نے ’بزدلی‘ کا مظاہرہ کرنے اور حملہ آوروں کے سامنے سرنڈر کرنے پر زہری لیویز تھانے میں تعینات 15 لیویز اہلکاروں کو نوکری سے نکال دیا ہے۔اسی طرح مستونگ کے علاقے دشت میں لیویز چوکی سے اسلحہ چھیننے کے واقعہ کے بعد وہاں تعینات تین اہلکاروں کو بھی برطرف کر دیا گیا ہے جبکہ علاقے کے اسسٹنٹ کمشنر کو معطل کیا گیا ہے۔
کیا عمران کو واقعی کرپشن کے الزام پر سزا ملنے سے فرق نہیں پڑتا؟
خیال رہے کہ بلوچستان امن وامان کی ذمہ داریوں اور انتظامی لحاظ سے اے اور بی ایریاز میں تقسیم ہے۔ شہری علاقوں کو اے ایریا کہا جاتا ہے جہاں امن وامان کی ذمہ داری پولیس کی ہے جبکہ دیہی علاقے لیویز فورس کے زیر انتظام ہیں۔لیویز حکام کے مطابق رقبے کے لحاظ سے صوبے کا تقریباً 85 فیصد علاقہ لیویز کے زیرِانتظام ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ چوری و ڈکیتی سمیت عام جرائم کی شرح لیویز علاقوں میں کم ہے تاہم شورش کے شکار علاقوں میں دونوں فورسز خاص کر لیویز کو عسکریت پسندوں کے ساتھ لڑنے کی صلاحیت میں کمزور سمجھا جاتا ہے اس لیے عسکری حکام لیویز کو پولیس میں ضم کرنے پر زور دیتے ہیں تاہم حکومت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے اس کی مخالف کی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ بلوچستان لیویز فورس نیم قبائلی فورس تھی جو برطانوی دور میں انگریزوں نے قائم کی تاہم بعد ازاں اسے باقاعدہ فورس کی شکل دی گئی۔پرویز مشرف دور میں لیویز فورس کو پولیس میں ضم کر دیا گیا تھا لیکن نواب اسلم رئیسانی کی حکومت نے 2010 میں لیویز فورس کو دوبارہ بحال کردیا تھا۔ 2018 میں جام کمال کی حکومت نے کوئٹہ، گوادر، حب اور لسبیلہ میں لیویز فورس کو ختم کرکے پولیس میں ضم کرنے اور باقی اضلاع میں لیویز کی تنظیم نو کے لئے 8 ارب روپے کے منصوبے کی منظوری دی۔
دوسری جانب لیویز اہلکاروں کی جانب سے عسکریت پسندوں کے سامنے سرنڈر کرنے کے واقعات میں مسلسل اضافے بارے ڈائریکٹر جنرل لیویز بلوچستان عبدالغفار مگسی کا کہنا ہے کہ حکومت نے ان واقعات کا سختی سے نوٹس لیا ہے اور دہشتگردوں کے خلاف نہ لڑنے والے غفلت کا مظاہرہ کرنےوالے اہلکاروں کو فوری طور پر برطرف کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔خود سے کئی گنا زیادہ تعداد اور جدید اسلحہ سے لیس حملہ آوروں سے لیویز اہلکار کیسے لڑتے؟ اس سوال کے جواب میں ڈی جی لیویز کا کہنا تھا کہ بعض جگہ پر نفری کی کمی کا مسئلہ بھی ہے۔ ’ہم زمینی حقائق کو دیکھ رہے ہیں جہاں اہلکاروں نے بالکل بھی مزاحمت نہیں کی جیسا کہ زہری میں اہلکاروں نے واضح طور پر غفلت دکھائی وہاں کوئی رعایت نہیں برتی کی جائے گی۔‘ صوبائی حکومت اور فوج مل کر اس صورتحال کے مختلف پہلوؤں پر غور کر رہے ہیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ فوج کی بارہ کور کے ساتھ مل کر حکمت عملی طے کی جا رہی ہے۔ لیویز اہلکاروں کا مورال بلند کیا جائے گا۔