تحریک انصاف وکلا اور سیاستدان دھڑوں میں کیوں تقسیم ہو گئی ؟
تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ عمران خان کی جماعت اس وقت دو واضح دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے جن میں سے ایک دھڑا سیاست دانوں پر مشتمل ہے جب کہ دوسرا دھڑا وکلا پر مبنی ہے، دونوں دھڑوں میں پارٹی پر قبضے کی کشمکش جاری ہے جس میں وکلا کا دھڑا حاوی ہے۔ ایسے میں خدشہ یہ ہے کہ اگر یہ آپسی جنگ ختم نہ ہوئی تو پارٹی میں موجود سیاست دان خود کو وکلا قیادت سے علیحدہ کرتے ہوئے اپنا علیحدہ پارٹی دھڑا تشکیل دے سکتے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف جس تیزی کے ساتھ سیاسی غلطیوں کے انبار لگا رہی ہے اس سے صاف نظر آتا ہے کہ اس کی جیل سے باہر موجود قیادت دانستہ طور پر چاہتی ہے کہ انکا بانی اندر ہی رہے۔ اگر ایسا نہیں یے تو پھر شاید وہ سیاست سے ہی نابلد ہے اس لیے نادانستہ سیاسی غلطیاں کرتی جا رہی ہے جن کا خمیازہ بانی کے علاوہ کارکنان اور جماعت سب بھگت رہے ہیں۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ اس وقت تحریک انصاف کو سیاست دانوں کی بجائے وکلا چلا رہے ہیں جو سیاسی رموز سے آشنا نہیں لہٰذا پارٹی شدید اندرونی اختلافات کا شکار ہو چکی ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ فیصلوں کا اختیار کس کے پاس ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق یہی وجہ ہے کہ بشری بی بی نے جیل سے رہا ہوتے ہی خیبرپختونخواہ میں علی امین گنڈا پور کی پناہ گاہ پر پہنچ کر یہ اعلان کیا ہے کہ ان کا پہلا مقصد عمران خان کو رہائی دلوانا ہے اور اب ساری پلاننگ اسی حوالے سے کی جائے گی۔
تاہم یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پچھلے تین ماہ کے دوران وزیراعلی خیبر پختون خواہ علی امین گنڈا پور نے اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے کی جتنی بھی کالز دیں وہ ناکام ہوئیں اور یوں احتجاجی غبارے سے بھی ہوا نکل چکی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان نے سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ جیل جانے سے پہلے اپنی پارٹی کی قیادت کسی سیاستدان کو سونپنے کی بجائے وکلا کو دے دی۔
اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انہیں یقین دلوایا گیا تھا کہ انہیں جیل سے نکالنے کےلیے پارٹی کو متحرک رکھنا ضروری ہے اور یہ کام سیاستدانوں سے بہتر وکلا کریں گے۔
تاہم ایک برس سے زائد گزر جانے کے باوجود عمران خان مسلسل جیل کے اندر ہیں اور پارٹی کے تمام وکلا رہنما باہر بیٹھ کر مسلسل اپنا سیاسی پروفائل بڑھا رہے ہیں۔
پنکی پیرنی کی رہائی پر دوبارہ ڈیل کے چرچے کیوں ہونے لگے؟
پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر خان سے لے کر حامد خان ایڈووکیٹ تک سبھی یوتھیے وکلا روزانہ ٹی وی پر آتے ہیں اور تقریریں کر کے چلے جاتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کی وکلا قیادت اپنے بانی کی رہائی کے لیے کوئی موئثر تحریک چلانے میں مکمل ناکام رہی ہے۔
پی ٹی آئی چیئرمین کا عہدہ برائے نام اور صرف خانہ پری کےلیے ہے۔ شاید ہی کوئی جماعت ایسی ہو جس کا سربراہ اتنا کمزور اور بے بس ہو جتنا کہ اس جماعت کا ہے۔ پی ٹی ائی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی دوسرے کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور ہر ایک اپنی خواہش اور ضرورت کے مطابق آگے نکلنے اور نمبر بنانے کیلئے کوشاں کرتا ہے۔
اس صورت حال میں بانی مسلسل اڈیالہ جیل میں بند ہے۔ پارٹی میں کسی کو نہیں معلوم کہ کل کیا ہوگا، کیا کرنا ہے اور اس کے مقاصد و نتائج کیا ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے اس صورت حال کے پیش نظر پی ٹی آئی کی سیاسی غلطیوں کو دانستہ غلطیاں کہنا غلط نہیں ہوگا لیکن سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ اس کے باوجود نہ کسی کو حسب خواہش فائدہ ہوا اور نہ ہی ہوگا بلکہ یہ تو جماعت کا مستقبل تاریک بنانے کےمترادف ہے بس وقتی پی ٹی آئی فائدے سے سب لطف اندوز ہورہے ہیں۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی اپنے بانی کے اصول کے مطابق یوٹرن جماعت ہے۔ اسے کوئی عار نہیں محسوس ہوتا کہ صبح کے فیصلے سے شام کو کس طرح منحرف ہونا ہے، نہ اسکی وکلا قیادت کو یہ احساس ہے کہ یوٹرن کے مابعد اثرات کیا ہوں گے حالانکہ یوٹرن پالیسی کے اثرات بانی خودہی بھگت رہے ہیں۔
دراصل سیاست میں غیرسیاسی اور جذباتی و بچگانہ بیانات اور فیصلے اپنی سیاسی ساکھ کو خود اپنے ہی ہاتھوں مجروح کرنا ہے۔ عمران کی رہائی کے لیے انتشاری اور غیر سیاسی ناکام احتجاجوں کی سیریز سے لے کر26ویں آئینی ترمیم کے منظور ہونے اور نئے چیف جسٹس کی تعیناتی کیلئے قائم کی گئی کمیٹی میں شمولیت سے پہلے اقرار اور پھر انکار جیسے فیصلوں نے ثابت کر دیا ہے کہ پی ٹی آئی کی وکلا قیادت سیاست اور عقل و فہم سے عاری ہے جو شدید داخلی انتشار کا شکار ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسے میں پی ٹی آئی کی غیر وکلا لیڈرشپ اپنی وکلا قیادت سے مایوس ہو کر علیحدہ راستہ اور لائحہ عمل اختیار کر سکتی ہے خصوصا جب ہر طرف سے مایوسی نے عمران خان کو بھی بدظن کرتے ہوئے ذہنی جھنجھلاہٹ میں مبتلا کر رکھا ہے اور وہ جلد از جلد جیل سے باہر آنا چاہتے ہیں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے پارٹی میں سیاسی سوچ رکھنے والی غیر وکلا قیادت شاید جلد ہی کچھ اور فیصلہ کر لے۔