تحریک انصاف کی مرکزی قیادت احتجاج میں شامل کیوں نہ ہوئی؟

تحریک انصاف کی فائنل کال کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی قیادت میں بلیم گیم کا سلسلہ جاری ہے۔ جہاں ایک طرف احتجاج کی ناکامی پر بشری بی بی کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے وہیں دوسری جانب مرکزی قیادت کی احتجاج میں عدم موجودگی بارے بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق حکومت کے خلاف اپنی حتمی کال کیلئے میدان میں اترنے والی پی ٹی آئی نے کچھ حاصل کیے بغیر ہی پسپائی اختیار کرلی، بلکہ پرتشدد احتجاج کے بعد پی ٹی آئی پر مشکلات کا ایک نیا سلسلہ نئے مقدمات کی صورت میں نکلتا محسوس ہو رہا ہے۔

سینئر صحافی سلمان غنی کے مطابق اسلام آباد کی انتظامی مشینری نے سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے غیر قانونی اقدامات اور فورسز پر حملوں کے مرتکب افراد کی تلاش شروع کردی ہے ، یہی وجہ ہے کہ اب پی ٹی آئی کے اندر سے ہی ایک نئی بلیم گیم شروع ہو چکی ہے اوراب جارحانہ حکمت عملی کے بعد یکدم ہونے والی پسپائی اور پارٹی کی ہونے والی رسوائی کی ذمہ داری بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر ڈالی جارہی ہے ، سلمان غنی کے مطابق اب پی ٹی آئی کو ازخود اس کا جائزہ لینا پڑے گا کہ احتجاج کی بڑی مشق کا اسے فائدہ کیا ہوا اور نقصان کیا، بلاشبہ احتجاجی عمل کے نتیجہ میں انہوں نے اپنی احتجاجی صلاحیت کا مظاہرہ تو کر ڈالا لیکن یہ حکومت سے کچھ منوائے بغیر پسپا ہوگئی یہ اس کا بڑا سیاسی نقصان ہے ، سلمان غنی کے بقول جہاں تک احتجاجی عمل میں بشریٰ بی بی کے کردار اور ان کی لیڈر شپ کا سوال ہے تو مذکورہ احتجاج میں ان کی ہنگامی بنیادوں پر شرکت ہر حوالہ سے پراسرار تھی بلکہ ان کی جیل سے رہائی کے عمل کی ٹائمنگ کو بھی پراسرار قرار دیا جاتا ہے  تاہم انہوں نے کچھ ہی دنوں میں جماعت کے اندر مرکزیت حاصل کی اور پارٹی کو احتجاجی عمل میں جھونک کر ایسے مقام پر لا کھڑا کیا جس پر اب خود جماعت کے اندر سے آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں۔ اب آنے والے حالات میں ان کا کردار کیا ہوگا یہ ایک بڑا سوال ہے ،

سلمان غنی کے مطابق بلاشبہ پی ٹی آئی پر برا وقت ہے تاہم تحریک انصاف اپنا مقدمہ عدالت میں لڑ رہی ہے اوربہت حد تک سے ریلیف بھی مل رہا ہے ۔میڈیا کے ذریعہ وہ اپنا کیس بھی پیش کرتی نظر آ رہی ہے ، ایک صوبہ میں اس کی حکومت قائم ہے اور اسے بظاہر کوئی خطرہ بھی نہیں تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر پھر اسے آخری کال کی ضرورت کیوں پیش آئی،کیا ریاست نے ان کے سامنے سرنڈر کر جانا تھا  اور کیا اس سے عمران خان رہا ہو سکتے تھے دیکھنا چاہیے کہ فائنل کال۔کا مشورہ کہاں سے آیا۔

دوسری جانب تحریک انصاف کے حالیہ اسلام آباد احتجاج کی ناکامی کے بعد پارٹی میں شدید اختلافات سامنے آگئے ہیں۔سینئر رہنماؤں کے درمیان ناقص منصوبہ بندی اور مظاہرے کی غیر مؤثر حکمت عملی پر الزامات کا تبادلہ جاری ہے۔  تاہم پارٹی کے اکثریتی رہنما بشریٰ بی بی کو ناکامی کا ذمہ دار قراردے رہے ہیں جنھوں نے ڈی چوک جانے پر اصرار کیا۔

پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلام آباد احتجاج، جس کا مقصدعمران خان کی رہائی اور حکومت پر دباؤ ڈالنا تھالیکن پارٹی اپنے اہداف حاصل کرنے میں مکمل طورپر ناکام رہی۔ اس ناکامی نے پارٹی کے مختلف دھڑوں میں اختلافات کو جنم دیا ہے۔ کچھ سینئر رہنماؤں نے مرکزی قیادت پر حکمت عملی میں کمی کا الزام لگایا ہے۔

وزیراعلی کے ترجمان اورمشیر اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف پہلے ہی انکشاف کرچکے ہیں کہ عمران خان سنگجانی میں جلسے پر راضی تھے لیکن بشریٰ بی بی نے اختلاف کیا جس کے باعث پارٹی کو نقصان اٹھانا پڑا۔

اس حوالے سے پارٹی کے سینئر رہنما شوکت یوسفزئی بھی پھٹ پڑے۔انھوں نے کہا کہ علی امین کو قربانی کا بکرا بنایا گیا عمران خان نے سنگجانی میں جلسے پر رضامندی ظاہر کی لیکن بشریٰ بی بی نے ڈی چوک جانے کی ضد کی جس کی پارٹی کو بھاری قیمت چکانا پڑی ۔ شوکت یوسفزئی نے کہا ہے کہ پارٹی بشریٰ بی بی چلائیں گی یا لیڈرشپ چلائےگی؟ پارٹی لیڈرشپ کے پاس اتنا اختیار نہیں تو استعفیٰ دے دینا چاہیے۔

خیبر پختونخواہ میں PTI حکومت خطرے میں کیوں پڑ گئی ؟

شوکت یوسفزئی کا کہنا تھاکہ ڈی چوک واقعے پر بہت افسوس ہوا، پی ٹی آئی پنجاب کی لیڈرشپ کہاں غائب تھی۔ان کا کہنا تھاکہ ہم ڈی چوک میں بیٹھ بھی جاتے تو ہمارے پاس کوئی پلان نہیں تھا، پشاور سے روانہ ہونے سے پہلے مشاورتی کمیٹی کیوں نہیں بنائی گئی؟ بدقسمتی سے جوپارٹی کو لیڈ کر رہے ہیں، جلوس کولیڈکرنے نہیں آئے۔ علی امین گنڈاپور نے پارٹی اور ورکر کا پریشر برداشت کیا، پارٹی کو سوچنا چاہیے جو اصل چہرے ہیں وہ پیچھے کیوں دھکیلے گئے؟

تاہم پارٹی کے ایک اہم رہنما نے بتایا کہ اختلافات کا ایک بڑا سبب احتجاج کی منصوبہ بندی تھی۔ بعض رہنماؤں نے زیادہ جارحانہ رویہ اختیار کرنے پر زور دیا، جبکہ دیگر نے قانونی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے کسی ایک مقام پر جلسے کی حمایت کی تاہم اسلام آباد کے احتجاج میں شرکت کنندگان کی کم تعداد اور ناکافی سہولیات، نے بھی مظاہرے پر منفی اثر ڈالا۔ جس کی وجہ سے احتجاج کی فائنل کال ناکامی سے دوچار ہوئی۔

Back to top button