خیبر پختونخواہ میں PTI حکومت خطرے میں کیوں پڑ گئی ؟
تحریک انصاف اپنی تاریخ کے نازک دور سے گزر رہی ہے۔ پی ٹی آئی میں سیاسی خودکش بمباروں کی اکژیت کے ساتھ سیاسی نابالغوں کی بھی کمی نہیں، تاہم نام نہاد حقیقی آزادی احتجاج کی ناکامی اور پی ٹی آئی کی انتشار پسندانہ حکمت عملی نے پارٹی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ مبصرین کے مطابق اگر حالات بہتری کی جانب نہ بڑھتے تو ممکن ہے تحریک انصاف کو آنے والے دنوں میں پختونخوا میں اپنی حکومت سے ہی ہاتھ دھونے پڑ جائیں کیونکہ ایسی صورت حال میں جہاں ایک صوبے کا انتظامی سربراہ وفاق پر لشکر کشی کیلئے کمر بستہ ہو، وفاق زیادہ دیر خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھ سکتا۔
مبصرین کے مطابق تحریک انصاف گزشتہ ڈھائی سال سے سڑکوں پر ہے، 26 مئی 2022 سے لے کر اب تک سیاسی احتجاج کے کئی ادوار آئے، اس دوران 9 مئی بھی ہوا، مرکزی قیادت جیلوں میں اور کچھ روپوش ہیں، جبکہ سینکڑوں ورکرز جیلوں میں قید کاٹ رہے ہیں اور اب 27 نومبر کی فائنل احتجاج کی ناکامی نے پی ٹی آئی کی نام نہاد عوامی مقبولیت کا پول کھول دیا ہے ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب تحریک انصاف کو احتجاجی سیاست کو خیر باد کہہ کر سنجیدہ مذاکرات نہیں کرنے چاہئیں؟ دوسری جانب یہ سوال پھی پیدا ہوتا ہے کہ اس ساری صورت حال میں عمران خان آخر کیوں احتجاج کی پالیسی جاری رکھنے پر مجبور ہیں؟ وہ کون سے خدشات ہیں جو عمران خان کو احتجاج میں شدت لانے پر مجبور کر رہے ہیں، کہیں جنرل فیض کا کورٹ مارشل اور عمران خان کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل تو اس کی وجہ نہیں؟ یاد رہے 10 اپریل 2022 کو اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد تحریک انصاف پہلی بار باقاعدہ لشکر کشی کی صورت ڈی چوک پہنچی، جس کی قیادت عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کر رہی تھیں مگر نتائج توقعات کے برعکس نکلے اور پی ٹی آئی قیادت کو یوتھیوں سمیت جوتیاں چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔!
مبصرین کے مطابق عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کا گذشتہ ہفتے دیا گیا ایک بیان اسلام آباد مارچ سے پہلے ایک ٹریلر تھا، جس میں انہوں نے سعودی قیادت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘مدینہ کے دورے کے دوران جب عمران خان ننگے پاؤں چلے تو جنرل (ر) باجوہ کو کالیں آنا شروع ہو گئیں کہ تم کسے اُٹھا لائے ہو، ہم یہاں شریعت ختم کر رہے ہیں اور تم یہاں شریعت کے ٹھیکداروں کو لے آئے ہو’۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بیرونی مداخلت کوئی نئی بات نہیں، لیکن سعودی عرب کی قیادت پر براہ راست الزام سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں، جبکہ بعد ازاں اسلام آباد احتجاج کے دوران سکیورٹی فورسز سے تصادم نے ایک بار پھر پی ٹی آئی کو اسٹیبلشمنٹ کے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ مبصرین کے مطابق اسلام آباد میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کے بعد پی ٹی آئی کی بارگیننگ پوزیشن مزید کمزور ہوئی ہے۔ حکومت کی جانب سے بار بار مذاکرات کی آفرز کو مسترد کرنے کے بعد اب مقتدر حلقے بھی پی ٹی آئی قیادت کی کوئی بات سننے پر آمادہ نہیں ایسے میں تحریک انساف اپنی جارحانہ حکمت عملی کی وجہ سے بند گلی میں داخل ہو چکی ہے۔
تحریک انصاف کا 278 ورکرز کی موت کا دعوی جھوٹ کا پلندہ نکلا
تجزیہ کاروں کے مطابق فائنل احتجاج کی کال کے دوران جہاں تحریک انصاف کے مخالفین کیلئے بشریٰ بی بی کی آفیشل انٹری کسی ‘سرپرائز پیکج’ سے کم نہیں تھی وہیں دوسری جانب ‘حقیقی آزادی’ کے اس سارے ہنگامے میں وزیر اعلیٰ پختونخوا علی امین گنڈا پور کے صوبے میں ایک ضلع ایسا بھی ہے جو آگ میں جل رہا ہے، اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق ضلع کرم میں 100 سے زائد افراد بدامنی کے واقعات میں جاں بحق ہو چکے ہیں جو کسی المیے سے کم نہیں۔ پختونخوا کے شمالی اضلاع میں امن و امان کی صورت حال شدید ابتر ہو چکی ہے جو فوری انتظامی فیصلوں کا تقاضا کرتی ہے۔ تاہم وزیر اعلیٰ علی امین کا اپنے صوبے سے سینکڑوں کارکنوں کے ہمراہ باقاعدہ قافلے کی صورت اسلام آباد پر لشکر کشی کرنا وفاق کو پختونخوا میں گورنر راج لگانے پر مجبور کر سکتا ہے جو بالآخر تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے خاتمے پر منتج ہو گا۔ مبصرین کے بقول اگر حالات بہتری کی جانب نہیں بڑھتے تو ممکن ہے تحریک انصاف کو آنے والے دنوں میں پختونخوا میں اپنی حکومت سے ہی ہاتھ دھونے پڑ جائیں کیونکہ ایسی صورت حال میں جہاں ایک صوبے کا انتظامی سربراہ وفاق پر لشکر کشی کیلئے کمر بستہ ہو، وفاق زیادہ دیر خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھ سکتا۔ اگر یہی نتائج عمران خان کو مقصود ہیں تو کیا پھر تحریک انصاف کہیں اپنے لیے کسی ایسے نئے بحران کو تو دعوت نہیں دے رہی جس کا سامنا کرنے کی صلاحیت کم از کم موجودہ قیادت میں تو نہیں ہے۔