امریکی صدر نے عافیہ صدیقی کی سزا معافی کی اپیل کیوں مسترد کی؟
پاکستانی نیورو سائنسدان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملے کے الزام میں ایک امریکی عدالت نے 2010 میں 86 برس قید کی سزا سنائی تھی۔ عافیہ صدیقی نے امریکی صدر سے اپنی سزا معاف کرنے کی اپیل کی تھی، لیکن ایسا نہیں ہو پایا۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکی عدالت نے عافیہ صدیقی کو ایک خطرناک دہشت گرد قرار دیا تھا جو القاعدہ کی رکن اور سہولت کار قرار تھی۔ یاد رہے عافیہ صدیقی القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھی خالد شیخ محمد کے بھتیجے کی اہلیہ ہیں۔
امریکی عدالت نے عافیہ صدیقی کو 86 برس قید کی سزا سناتے ہوئے کہا تھا کہ وہ 2002 میں القاعدہ کے ایک ایسے سلیپر سیل کی رکن تھیں جو کراچی سے کام کر رہا تھا اور جس نے 11 ستمبر 2001 کے دہشت گرد حملوں کی کامیابی کے بعد امریکہ، برطانیہ اور پاکستان میں ایسے مزید حملوں کے منصوبے بنائے تھے۔ اس سلیپر سیل نے ٹیکسٹائل اشیا برآمد کرنے کی آڑ میں امریکہ میں دھماکہ خیز مواد سمگل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ خالد شیخ محمد کے اقبالی بیان کے مطابق اس دھماکہ خیز مواد سے امریکہ میں اہم معاشی اہداف کو نشانہ بنایا جانا تھا۔ دہشت گردی کا یہ آپریشن امپورٹ ایکسپورٹ کے کاروبار کے ذریعے انجام دیا جانا تھا جو ایک پاکستانی بزنس مین سیف اللہ پراچہ چلاتا تھا۔
تاہم عافیہ صدیقی کے حامی سزا کے اس فیصلے کو ہدف تنقید بناتے رہے ہیں۔ گذشتہ کئی برسوں سے ان کی سزا معافی اور امریکی جیل سے رہائی کی تحریک چل رہی ہے جس کی روح رواں انکی اپنی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی ہیں۔ امریکہ سے تعلیم یافتہ ڈاکٹر عافیہ مارچ 2003 میں کراچی سے لاپتہ ہو گئی تھیں۔ ان کے اہلخانہ کا دعویٰ تھا کہ عافیہ کو کراچی میں ان کے گھر سے تین بچوں سمیت حراست میں لیا گیا تھا۔ لیکن امریکی حکام نے جولائی 2007 میں عافیہ کی افغانستان سے حراست ظاہر کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ انہوں نے امریکی فوجیوں پر فائرنگ کر کے انھیں قتل کی کوشش کی۔ ایف بی آئی اور نیویارک کے پولیس کمشنر ریمنڈ کیلی کی طرف سے عافیہ کے خلاف کیس میں فائل کیے گے بیان کے مطابق عافیہ کو افغانستان میں غزنی کے صوبے سے گرفتار کیا گیا۔
امریکی حکام کے مطابق افغان پولیس کو شیشے کے مرتبانوں اور بوتلوں میں سے کچھ دستاویزات ملی تھیں جن میں بم بنانے کے طریقے درج تھے۔ اس بیان میں کہا گیا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ کو گرفتار کرنے کے بعد ایک کمرے میں بند کیا گیا تھا، لیکن جب ان سے تفتیش کے لیے ایف بی آئی اور امریکی فوجیوں کی ایک ٹیم پہنچی تو انھوں نے ایک امریکی فوجی سے گن چھین کر ان پر دو گولیاں چلائیں لیکن وہ کسی کو نشانہ نہ بنا سکیں۔ جوابی فائرنگ میں ڈاکٹر عافیہ زخمی ہو گئی تھیں۔
اپنی گرفتاری کے بعد ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امریکہ میں پاکستانی سینیٹرز کے ایک وفد سے ملاقات میں دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ لائے جانے سے قبل انھیں افغانستان میں بگرام کی امریکی جیل میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ عافیہ صدیقی پر مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے جج نے کہا تھا کہ امریکی شہریوں پر قاتلانہ حملے کی ترتیب وار سزا 20 سال، امریکی عملداروں اور اہلکاروں پر حملے کی سزا 20 سال، امریکی حکومت اور فوج کے عملداروں اور اہلکاروں پر ہتھیار سے حملے کی سزا 20 سال، متشدد جرم کرنے کے دوران اسلحہ سے فائر کرنے کی سزا عمر قید، اور امریکی فوج اور حکومت کے ہر اہلکار اور عملدار پر حملے کی ہر ایک سزا 8 سال یعنی 24 سال بنتی ہے۔ یوں عافیہ صدیقی کو ملا جلا کر 86 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
برطانوی اخبار دی گارڈین میں شائع کردہ گوانتانامو فائلز کے مطابق عافیہ صدیقی نے امریکہ میں دھماکہ خیز مواد سمگل کرنے کی کوشش کرنے کے علاوہ القاعدہ کو بائیولوجیکل ہتھیار بنا کر دینے کی پیشکش کی تھی۔ یہ الزامات امریکی انٹیلی جنس نے القاعدہ کے تین سینیئر ارکان سے براہ راست تفتیش کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات کے نتیجے میں لگائے، الزامات کے مطابق امریکہ میں 11 ستمبر کے حملوں کے منصوبہ ساز خالد شیخ محمد بھی بائلوجیکل ہتھیار بنانے کے منصوبے میں شامل تھے۔
عافیہ صدیقی کے وکیل کلائیو سٹیفرڈ سمتھ کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کو عافیہ صدیقی کی جانب سے دائر کردہ سزا معاف کرنے کی اپیل 76 ہزار 500 الفاظ پر مشتمل تھی جسے مسترد کر دیا گیا ہے۔ عافیہ کے وکیل نے گواہوں کی شہادتوں کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ انٹیلی جنس کی فراہم کردہ غلط معلومات کی وجہ سے ملزمہ قرار دی گئی تھیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ جب عافیہ سال 2003 میں پاکستان کے دورے پر تھیں، تو انہیں انٹر سروسز انٹیلی جنس نے تین بچوں کے ہمرا تحویل میں لے کر سی آئی اے کے حوالے کر دیا جو انہیں افغانستان میں بگرام ایئر بیس لے گئی۔ وکیل کا کہنا تھا کہ امریکی انٹیلی جنس نے غلط اندازہ لگایا کہ وہ ایک ایسی نیوکلیئر ایکسپرٹ ہیں جو ریڈیو ایکٹو بم بنانے کے لیے کام کر رہی ہیں جب کہ درحقیقت انہوں نے ایجوکیشن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔
عمران نے ڈیل کی تو انکا انجام بھی نواز شریف والا کیوں ہو گا؟
اس سے پہلے امریکہ میں موجود عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی نے ایکس پر جاری اپنی پوسٹ میں صدر بائیڈن کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’برائے مہربانی اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے سے پہلے عافیہ کو معافی عنایت کر دیجیے۔‘ انہوں نے ٹیکساس کی جیل کے باہر مظاہرہ کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا تھا: ’جزاک اللہ خیر، آپ لوگوں کی موجودگی نے مجھے وہ حوصلہ دیا جس کی مجھے ضرورت تھی۔ دعا کریں کہ صدر بائیڈن یہ سمجھ سکیں کہ عافیہ صدیقی سب سے زیادہ آزادی کی حق دار ہیں۔‘ اس سے قبل برطانوی نشریاتی ادارے سکائی نیوز نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ عافیہ صدیقی کو امید ہے کہ انہیں چھوڑ دیا جائے گا کیونکہ ’نئے شواہد‘ سامنے آنے سے ان کی بے گناہی کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ تاہم امریکی صدر نے اپنے اقتدار کے اخری روز جن پانچ افراد کی سزائیں معاف کی ہیں ان میں عافیہ صدیقی کا نام شامل نہیں۔