آئینی ترمیم کے لیے حکومت مولانا پر بھروسہ کیوں نہیں کرنا چاہتی؟
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے آرٹیکل 63 کی تشریح کالعدم قرار دیے جانے کے بعد اب وفاقی حکومت مجوزہ آئینی ترمیمی پیکج منظور کروانے کی پوزیشن میں آ گئی ہے اور اسے مولانا فضل الرحمن کی حمایت بھی درکار نہیں رہ گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ اب اگر مولانا حکومت کے ساتھ جائیں گے تو اپنے فائدے کی خاطر ہی ایسا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا نے ابھی تک دوغلی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو ویلکم کرتے ہوئے مولانا نے حکومت کا ساتھ نہ دینے کا عزم ظایر کیا ہے، تاہم مولانا بھی عمران خان کی طرح یوٹرن لینے کے ماسٹر ہیں اور بالاخر اپنا مفاد دیکھتے ہوئے ہی آخری فیصلہ کریں گے۔ ویسے بھی انہیں تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے رہنے کا فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہی ہوگا چونکہ ان کی سیاست کا میدان بھی خیبر پختون خواہ ہی ہے۔ تاہم دوسری طرف حکومت آئینی ترامیینی پیکج منظور کروانے کے لیے ان کی حمایت پر بھروسہ نہیں کرے گی خصوصا سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ آ جانے کے بعد تو بالکل بھی نہیں۔
اپنی ایکسپرٹ رائے دیتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بظاہر لگتا ہے کہ حکومت کے ہاتھ کُھل گئے ہیں اور اسے آئینی ترامیم کے لیے اب جمعیت علمائے اسلام کی بھی حمایت کی کوئی خاص ضرورت نہیں رہے گی۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس عدالتی فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں آزاد ارکان حکومت کے پسندیدہ افراد میں سرفہرست ہوں گے اور ایسے حالات میں جب سابق وزیر اعظم عمران خان جیل میں ہیں تو پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد ارکان کو مینج کرنے میں حکومت کو کافی آسانی ہوگی۔ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں آرٹیکل 63 کے سابقہ فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس نے اس فیصلے میں وہ باتیں بھی شامل کر دیا تھیں جو کہ آئین میں کہیں درج ہی نہیں تھیں، اسی لیے ان کے ساتھ بینچ میں شامل دو ججوں نے اسے آئین دوبارہ لکھنے کی کوشش قرار دیا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اب جمعت علمائے اسلام کی قیادت بھی اپنے رویے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو گی اور بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ مولانا کی جماعت 26ویں آئینی ترمیم میں حکومت کا ساتھ دے گی ۔
سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ فائز عیسی کے بینچ کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد اس بات کے امکانات بڑھ گئے ہیں کہ حکومت آئندہ آنے والے دنوں میں پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کر کے آئینی ترمیم کو ایوان میں پیش کرے کیونکہ حکومت کی یہ کوشش ہے کہ وہ 25 اکتوبر سے پہلے اس ترمیم کو پارلیمنٹ سے منظور کروا لے تاکہ آئینی عدالت تشکیل دی جا سکے اور قاضی فائز عیسی کو اس کا پہلا چیف جسٹس مقرر کیا جا سکے۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی 25 اکتوبر کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہو رہے ہیں تاہم تحریک انصاف آئینی عدالت کے قیام سے متعلق مجوزہ آئینی ترمیم کو ’پرسن سپیسیفک‘ قرار دے رہی ہے۔
برسراقتدار مسلم لیگ ن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر سپریم کورٹ نے آئین کو دوبارہ لکھنے کے عمل کو غلط قرار دیا ہے اور ایک تاریخی غلطی کو درست کر دیا ہے۔ مسلم لیگ کے سینیئر نائب صدر حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ عطا بندیال بینچ کے فیصلے کو بنیاد بنا کر پنجاب میں انکی منتخب حکومت کو گرایا گیا تھا۔
دوسی جانب جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اگرچہ وہ سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول کرتے ہیں لیکن اس کی بنیاد پر پارلیمان میں خرید و فروخت کا نیا راستہ نہیں کُھلنا چاہیے اور آئینی معاملات میں میچ فکسنگ کی راہ ہموار نہیں ہونی چاہیے۔انھوں نے کہا کہ آئینی ترمیم کے معاملے پر بظاہر کوئی اتفاق رائے نہیں مگر حکومت انتہائی عجلت میں نظر آتی ہے۔انھوں نے تجویز دی کہ آئینی ترمیم کا بل کچھ عرصے کے لیے مؤخر کر دیا جائے تاکہ اتفاق رائے پیدا ہو سکے۔ اس کیس میں سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت کے دوران بانی تحریک انصاف عمران خان کے وکیل علی ظفر نے اپنے دلائل کے دوران کہا تھا کہ سپریم کورٹ کا سابقہ آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ پارلیمان میں ہارس ٹریڈنگ کو روکتا ہے اور ’حکومت آئینی ترمیم لا رہی ہے اور تاثر ہے کہ سپریم کورٹ اس ہارس ٹریڈنگ کی اجازت دے گی۔‘ تاہم دوسری جانب حکومتی جماعتوں کا کہنا ہے کہ عمر عطا بندیال کا فیصلہ آئین کی توہین تھی اور اس کا بنیادی مقصد پرویز الہی کو وزیراعلی بنوانا اور عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو رکوانا تھا۔
یاد ریے کہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک پانچ رُکنی بینچ نے 17 مئی 2022 کو آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق سابق صدر عارف علوی کی جانب سے دائر کرہ ایک صدارتی ریفرنس پر 2 کے مقابلے میں 3 کی اکثریت سے فیصلہ سُنایا تھا۔ یہ اکثریتی فیصلہ جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا تھا۔ عمر عطا بندیال، سپریم کورٹ سے مستعفی ہونے والے سابق جج جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر نے اپنے اُس اکثریتی فیصلے میں قرار دیا تھا کہ منحرف رکنِ پارلیمان کا دیا گیا ووٹ شمار نہیں کیا جائے۔ جبکہ اُس پانچ رکنی بینچ میں شامل جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اس اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔ اختلاف کرنے والے دونوں ججوں نے قرار دیا تھا کہ آرٹیکل 63 اے کی مزید تشریح ’آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترادف ہو گی۔‘
اس کیس میں درخواست گزار سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی اس فیصلے پر اسی رائے کا اظہار کیا تھا۔ اُس وقت کی پی ڈی ایم حکومت میں شامل جماعتوں نے سپریم کورٹ کے اِس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر کی تھی جسے ایک سال سے بھی زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد گذشتہ دنوں سماعت کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔نظرثانی کی اس اپیل کی سماعت اب چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے کی۔ اس بینچ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے علاوہ جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم افغان اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل شامل تھے۔ جسٹس منیب نے اس بینچ میں بیٹھنے سے انکار کیا تھا جس کے بعد جسٹس نعیم افغان کو اس بینچ کا حصہ بنایا گیا تھا۔