پاکستان توڑنے والے حکمران تاریخ سے سبق کیوں نہیں سیکھنا چاہتے ؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ حکمران طبقے نے اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک دو لخت ہو جانے کے باوجود تاریخ سے سبق نہ سیکھنے کی ٹھان رکھی ہے۔ حکمرانوں کے غلط فیصلوں سے محمد علی جناح کے پاکستان کا جغرافیہ بدل گیا لیکن تاریخ سے سبق سیکھنا آج بھی توہین سمجھا جاتا ہے۔ یہاں سوچ یہ ہے کہ جغرافیہ بدلتا ہے تو بدلے لیکن کسی بڑے صاحب کی انا مجروح نہیں ہونی چاہئے۔ دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا منصوبہ بھی اسی سوچ کے تحت بنایا گیا ہے۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں حامد میر کہتے ہیں کہ جو لوگ آج کے ارباب اختیار کے بہت قریب ہیں یہ دس پندرہ سال کے بعد بتائیں گے کہ انکے کون کون سے سابقہ باس نے پاکستان کو کیا کیا نقصانات پہنچائے۔ ہوسکتا ہے کہ الطاف گوہر جیسا کوئی بیورو کریٹ یہ دعویٰ بھی کر دے کہ اس نے تو بہت کوشش کی کہ پاکستان میں صوبائی منافرت نہ بڑھے لیکن کسی نے اس کی سنی ہی نہیں۔ الطاف گوہر صرف 39سال کی عمر میں وفاقی سیکرٹری اطلاعات بن گئے تھے۔ پاکستان کے پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان کے اتنے زیادہ قریب تھے کہ لوگ انہیں پاکستان کا وائس پریذیڈنٹ سمجھتے تھے۔ جنرل ایوب خان کی کتاب ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ کے اصل مصنف بھی الطاف گوہر تھے جس کا اعتراف انہوں نے اپنی عمر کے آخری حصے میں کیا۔ جب انہوں نے اپنی آپ بیتی لکھنی شروع کی تو کینسر کا شکار ہوگئے اور آپ بیتی مکمل نہ کر سکے لیکن ان کی ادھوری آپ بیتی ’’گوہر گزشت‘‘ کے نام سے شائع کر دی گئی۔ یہ کتاب ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی۔

حامد میر بتاتے ہیں کہ آج کل کم از کم تین ریٹائرڈ بیوروکریٹ اپنی اپنی آپ بیتی لکھ رہے ہیں۔ ایک صاحب جنرل مشرف کے بہت قریب تھے۔ دوسرے دو صاحبان نواز شریف کے بہت قریب تھے۔ ان میں سے ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ نے مجھے بتایا کہ ان کی کتاب مکمل ہو چکی ہے جس میں انہوں نے صرف ماضی کے حکمرانوں کی نہیں بلکہ اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کیا ہے۔ الطاف گوہر نے بھی ’’گوہر گزشت‘‘میں یہ اعتراف کیا ہے کہ ایک بار انہوں نے مشرقی پاکستان میں بطور مجسٹریٹ ایک بنگالی کو اپنی حراست میں بہت مارا پیٹا تو ان پر مقدمہ درج ہو گیا لیکن انہوں نے جج کے ساتھ ملی بھگت کرکے خود کو سزا سے بچا لیا۔ الطاف گوہر نے اپنے باس جنرل ایوب خان کے بارے میں جو انکشافات کئے ہیں وہ ناقابل معافی ہیں اور آج کے پاکستان کو درپیش مسائل کا پس منظر سمجھنے میں بہت مدد دیتے ہیں۔

الطاف گوہر لکھتے ہیں کہ جنرل ایوب خان 1954ء میں فوج کے سربراہ کے ساتھ ساتھ وزیر دفاع بھی بنا دیئے گئے اور انہوں نے کابینہ کے اجلاسوں میں بیٹھنا شروع کر دیا تو انہیں محسوس ہوا کہ ان کے اندر قوم کا نجات دہندہ چھپا بیٹھا ہے۔ اس نجات دہندہ کو باہر لانے کیلئے انہوں نے ایک مقالہ تحریر کیا۔ 1954ء میں لکھے گئے اس مقالے کا عنوان تھا ’’پاکستان کے موجودہ اور آئندہ مسائل کا ایک مختصر جائزہ‘‘۔ انہوں نے پاکستان کے مسائل کا حل صدارتی نظام کو قرار دیا۔ یہ دستاویز انہوں نے کابینہ کے اجلاس میں پیش کی۔ کابینہ نے اس دستاویز کو بحث کے قابل نہ سمجھا اور کچھ عرصہ بعد پاکستان میں 1956ء کا آئین منظور کرلیا گیا۔ اب جنرل ایوب خان وزیر دفاع نہ رہے۔ وہ 1956ء کے وفاقی پارلیمانی آئین کے خلاف تھے۔ انہیں دو دفعہ مدت ملازمت میں توسیع مل چکی تھی اب وہ تیسری توسیع کے لئے سرگرم تھے۔ صدر سکندر مرزا ان کی اس خواہش سے آگاہ تھے۔ سکندر مرزا کی کوشش سے وزیر اعظم ملک فیروز خان نون نے جون 1958ء میں انہیں دو سال کی مزید توسیع دے دی۔ توسیع حاصل کرنے کے چند ماہ بعد ایوب خان نے سکندر مرزا کے ساتھ مل کر اکتوبر 1958ء میں مارشل لا نافذ کردیا اور آرمی چیف کے ساتھ ساتھ وزیراعظم بھی بن گئے۔ پھر وزیراعظم کو محسوس ہوا کہ اصل اختیار تو صدر کے پاس ہے تو انہوں نے صدر مملکت سے استعفیٰ لے کر صدر کے عہدے پر بھی قبضہ کرلیا اور یوں 1956ء کے آئین کی کہانی ختم ہوگئی۔

حامد میر کے بقول الطاف گوہر نے انکشاف کیا ہے کہ مارشل لا کے نفاذ سے بہت پہلے جنرل ایوب خان 1956 کا آئین منسوخ کرنے کا منصوبہ بنا چکے تھے اور اس سلسلے میں ایک مذہبی سکالر غلام احمد پرویز سے ان کا مستقل رابطہ تھا۔پرویز صاحب نے جون 1957ء میں جنرل ایوب خان سے کہا تھا کہ وہ اقتدار سنبھال لیں کیونکہ 1956ء کے غیر اسلامی آئین کو منسوخ کرنابہت ضروری ہے۔ پرویز صاحب پارلیمانی نظام کے بھی خلاف تھے اور سیاسی جماعتوں کو بھی غیر اسلامی سمجھتے تھے لہٰذا نہوں نے ایک نیا اسلامی آئین بنانے کی تجویز دی تھی۔ جب مارشل لا نافذ ہوگیا تو 18 جون 1959ء کو پرویز صاحب نے ایک خط کے ذریعے جنرل ایوب خان کو یاد دلایا کہ ملک کو ایک ترقی پسندانہ اسلامی آئین کی ضرورت ہے۔ ایک اور صاحب پیر علی محمد راشدی تھے۔ وہ فلپائن میں پاکستان کےسفیر تھے۔ انہوں نے 19دسمبر 1960ء کو ایوب کے نام خط میں تجویز دی کہ وہ ملک میں بادشاہت نافذ کردیں اور اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیں۔ ایوب خان نے جمہوریت، اسلام اور بادشاہت کو ملا کر 1962ء کا آئین تشکیل دیا اور ملک میں صدارتی نظام نافذ کردیا جسے ان کے بنگالی وزیر قانون جسٹس محمد ابراہیم نے مسترد کردیا اور مستعفی ہوگئے۔

 الطاف گوہر نے اپنی کتاب میں جگہ جگہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے بہت کوشش کی کہ جنرل ایوب خان اور بنگالی اہل فکر و دانش کو قریب لایا جائے تاکہ مشرقی اور مغربی پاکستان میں دوریاں ختم ہوں۔ وہ جب بھی کسی بنگالی صحافی یا ادیب کو ایوب خان سے ملواتے تو ایوب خان کے بنگالی وزیر ان صحافیوں اور ادیبوں کے خلاف باس کے کان بھرتے۔ انہیں ڈر لگا رہتا تھا کہ اگر ایوب خان کو کوئی پڑھا لکھا بنگالی پسند آ گیا تو ان بنگالی وزیروں کی چھٹی ہو جائےگی جو خوشامد سے ان کے قریب آئے تھے۔ ایک مرتبہ الطاف گوہر نے ایوب خان کو یاد دلایا کہ آپ نے 1962ء کے آئین میں ڈھاکہ کو دوسرا دارالخلافہ بنایا ہے لیکن وہاں کوئی وفاقی دفتر منتقل نہیں کیا گیا۔ یہ سن کر ایوب خان برہم ہوگئے اور انہوں نے بڑی بیزاری سے کہا ’’یارا، ان لوگوں نے ہمارے ساتھ نہیں رہنا، میں نے دوسرا دارالخلافہ اس لئے بنوا دیا کہ جب یہ ہم سے جدا ہوں تو ان کے پاس کوئی دفتر تو ہو‘‘۔

دہشت گردی کنٹرول کرناسپریم کورٹ کا نہیں پارلیمان کا کام ہے، جسٹس جمال مندوخیل

حامد میر کہتے ہیں کہ جنرل ایوب خان نے کئی سینئر افسروں کو نظر انداز کرکے جنرل یحییٰ کو آرمی چیف بنایا اور پھر اسی یحییٰ نے اپنے باس سے استعفیٰ لے کر دوبارہ مارشل لا لگا دیا۔ الطاف گوہر سے وہ تمام سول اعزازات واپس لے لئے جو انہوں نے اپنے باس جنرل ایوب سے قربت کے نتیجے میں حاصل کئے تھے۔ پھر الطاف گوہر صحافی اور مصنف بن گئے۔ آنیوالے وقت میں الطاف گوہر جیسے کئی ریٹائرڈ بیوروکریٹ اپنی کتابوں میں آپ کو بتائیں گے کہ جنرل ضیاء الحق، جنرل پرویز مشرف، نواز شریف، عمران خان اور شہباز شریف نے اپنے اپنے دور حکومت میں کیا غلطیاں کیں۔ سوال یہ ہے کہ جب غلطی ہو رہی ہوتی ہے تو تب اس کی نشاندہی کیوں نہیں کی جاتی؟ کیا کوئی حاضر سروس بیورو کریٹ یہ بتانا پسند کریگا کہ جب 8 فروری 2024ء کے الیکشن سے چند دن قبل چھ نئی نہروں کے متنازع منصوبے کی تشکیل ہوئی تو کسی نے کسی سرکاری فائل پر اس منصوبے سے پاکستان کی سلامتی کو پہنچنے والے خطرات سے آگاہ کیا تھا یا نہیں؟

Back to top button