گنڈاپورکی فراغت کی افواہوں میں دوبارہ تیزی کیوں آ گئی؟

خیبرپختونخوا میں ایک بار پھر وزیراعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈا پور کی تبدیلی کی خبروں میں ایک بار پھر تیزی آ گئی ہے۔ جہاں ایک طرف وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے قریبی حلقے سب اچھا کی گردان الاپتے ہوئے ایسی افواہوں کی تردید کرتے دکھائی دیتے ہیں وہیں دوسری جانب پی ٹی آئی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ گنڈا پور عمران خان اور بشریٰ بی بی کی گڈ بک سے نکل چکے ہیں جلد یا بدیر ان کی تبدیلی یقینی ہو چکی ہے۔ ذرائع کے مطابق پچھلے کچھ عرصے سے سوشل میڈیا ہر خیبرپختونخوا میں ان ہاؤس تبدیلی کی کوششوں سے متعلق خبریں تسلسل سے چل رہی ہیں۔ جن میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ خود پی ٹی آئی قیادت علی امین گنڈا پور کو ہٹانے پر تل گئی ہے اور اس کے پیچھے عمران خان اور بشریٰ بی بی ہیں۔ دونوں کی کوشش ہے کہ علی امین گنڈا پور کی جگہ کسی متحرک یوتھیے کو وزیر اعلیٰ بنادیا جائے۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ عرصہ پہلے خود عمران خان نے اس طرح کے امکان کو رد کیا تھا۔ لیکن واقفان حال اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے مطابق پس پردہ نہ صرف اس طرح کی کوششیں ہورہی ہیں، بلکہ ان کوششوں میں تیزی بھی آ چکی ہے۔
روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق پشاور اور اسلام آباد میں موجود ذرائع نے بتایا کہ بدقسمتی سے علی امین گنڈا پور پی ٹی آئی کی دو طاقتور خواتین بشریٰ بی بی اور علیمہ خان دونوں کی گڈ بک میں نہیں ہیں۔ علیمہ خان سے گنڈا پور کے تعلقات اس وقت سے کشیدہ چلے آرہے ہیں جب علیمہ خان نے پی ٹی آئی اسلام آباد سیکریٹریٹ میں روز بیٹھنا شروع کر دیا تھا اور پارٹی معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی تھی۔ ان دنوں وہ پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے عہدے داروں کو بھی احکامات جاری کیا کرتی تھیں۔ تب وزیر اعلیٰ گنڈاپور پارٹی کے صوبائی صدر بھی تھے۔ چنانچہ انہیں یہ مداخلت بری لگتی تھی اور انہوں نے اس کی شکایت عمران خان سے بھی کی تھی۔
ذرائع کے مطابق یہاں تک تو صحیح تھا۔ گنڈاپور کے اصل ستارے تب گردش میں آئے، جب انہوں نے پی ٹی آئی کی سب سے طاقتور خاتون بشریٰ بی بی سے سینگ پھنسائے۔ اگرچہ جیل سے رہا ہونے کے بعد بشریٰ بی بی نے وزیر اعلیٰ ہاؤس پشاور میں ڈیرے ڈالے تھے تو گنڈاپور نے اس خیال سے کہ کہیں بشریٰ بی بی ڈسٹرب نہ ہوں، اپنی فیملی اسلام آباد شفٹ کردی تھی۔ تب تک تعلقات میں ایسی کوئی دراڑ نہیں تھی۔ تاہم چھبیس نومبر کے ناکام لانگ مارچ کے بعد سب کچھ بدل گیا۔
بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اس ناکام مارچ سے پیدا ہونے والے اختلافات کے بعد بشریٰ بی بی نے خاموشی سے وزیر اعلیٰ ہاؤس چھوڑ دیا تھا۔ ان کی دوبارہ گرفتاری ہوئی تو وہ اسلام آباد میں ہی تھیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ گنڈاپور کے خلاف جو گرم ہوائیں چل رہی ہیں، اس کا ایک سبب علیمہ خان اور بشریٰ بی بی سے ان کے تعلقات خراب ہونا ہیں۔ جبکہ پارٹی کے اندر سے ان پر ’’کسی اور کا بندہ‘‘ ہونے کے الزامات نے بھی ان کی پوزیشن کو متاثر کیا ہے۔ بشریٰ بی بی کے ذریعے پہنچنے والی شکایات کے بعد اب عمران خان بھی ان سے مطمئن نہیں۔ اسی لئے عمران خان سے آخری ملاقات میں گنڈاپور کی خاصی سخت کلاس بھی لی گئی تھی۔
تاہم گنڈاپور کے مزاج سے واقف ایک سابق پارٹی عہدیدار کے بقول اگر گنڈاپور کو عمران خان وزارت اعلیٰ چھوڑنے کی ہدایت کرتے ہیں تو وہ کسی طور پر ایسا حکم تسلیم نہیں کریں گے۔ بلکہ زور زبردستی پر جارحانہ مزاحمت بھی کرسکتے ہیں۔ یہ بات عمران خان بھی جانتے ہیں۔ چنانچہ وہ نہیں چاہتے کہ ایک ایسے موقع پر جب پارٹی پہلے ہی بدترین اندرونی اختلافات اور تقسیم کا شکار ہے، گنڈاپور کو چھیڑا جائے۔ لیکن ان کے لیے اصل مسئلہ بشریٰ بی بی کی طرف سے آنے والا دباؤ ہے، جو ہر صورت گنڈاپور کو وزارت اعلیٰ سے ہٹا کر بابر سلیم سواتی کو لانے کی خواہش مند ہیں۔
ذرائع نے انکشاف کیا کہ بشریٰ بی بی کے کہنے پر ہی بابر سلیم سواتی کو صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ ملا تھا۔ انہیں اسپیکر شپ دلانے میں بھی سابق خاتون اول کا بنیادی کردار تھا۔ ذرائع کے مطابق بابر سلیم سواتی کی اہلیہ اور بشریٰ بی بی دیرینہ سہیلیاں ہیں۔ دونوں لاہور کے ایک کالج میں کلاس فیلو بھی رہ چکی ہیں۔ بابر سلیم سواتی نے دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں پی ٹی آئی جوائن کی تھی۔ جس کے بعد سے ان کی لاٹری کھلی ہوئی
پی ٹی آئی پشاور کے اندرونی ذرائع نے بتایا کہ بشریٰ بی بی کی جانب سے گرین سگنل ملنے کے بعد سے بابر سلیم سواتی بہت متحرک ہو چکے ہیں اور انھوں نے اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل کرنے کیلئے ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔تاہم وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ گنڈاپور کو وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کی کوششیں کامیاب ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اپنی وزارت اعلیٰ بچانے کے لیے وہ ہر حد تک جاسکتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ کہ بطور پارٹی صدر کے پی کے میں نوّے فیصد انتخابی ٹکٹ انہوں نے تقسیم کیے تھے۔ چنانچہ پی ٹی آئی کے ایم پی ایز کی اکثریت ان کی وفادار ہے۔ ذرائع کے بقول ان تمام عوامل کے علاوہ گنڈاپور کی مضبوطی کا سب سے بڑا فیکٹر یہ ہے کہ ابھی تک وہ مقتدر حلقے گنڈا پور کے خلاف نہیں ہوئے، جن کے ابرو کے اشارے پر کرسیاں تبدیل کی جاتی ہیں۔