پاکستان پر 18 ارب ڈالرز کا جرمانہ کیوں عائد ہونے جا رہا ہے؟

ایران سے سستی گیس کی خریداری کےلیے عملی اقدامات نہ کرنے پر چند ارب ڈالر قرض کےلیے آئی ایم ایف کے ترلے منتیں کرنے والے پاکستان پر 18 ارب ڈالر جرمانے کے بادل منڈلانے لگے۔ متعدد بار ڈیڈ لائنز میں توسیع کے باوجود مقررہ مدت میں گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل نہ کرنے پر بالآخر ایران پاکستان کے خلاف ثالثی عدالت میں پہنچ گیا جب کہ دوسری جانب پاکستان نے سفارتی محاذ پر اس حوالے سے کسی قسم کا ریلیف حاصل کرنے میں ناکام ہونے کے بعد عالمی لاء فرمز کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تاکہ خود کو 18 ارب ڈالر کے بھاری جرمانے سے بچایا جا سکے کیونکہ ثالثی عدالت کی جانب سے فیصلہ ایران کے حق میں آنے کی صورت میں نہ صرف پاکستان کے بیرون ملک موجود اثاثے ضبط ہو سکتے ہیں بلکہ پاکستان کو معاشی سطح پر بھی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ذرائع کے مطابق پاکستان نے بین الاقوامی ثالثی عدالت میں ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے معاملے پر نمائندگی کے لیے دو امریکی لا فرمز کی خدمات حاصل کر لی ہیں۔ان لا فرمز کی خدمات پاکستان کو اپنی طرف کے گیس پائپ لائن معاہدے کو مکمل کرنے یا بھاری جرمانہ ادا کرنے پر مجبور کرنے کے لیے ایران کی کوششوں کا مقابلہ کرنے کے لیے حاصل کی گئی ہیں۔

خیال رہےکہ تہران اور اسلام آباد نے جون 2009 میں سرحد پار پائپ لائن کے لیے گیس کی خرید و فروخت کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ معاہدے کے تحت ایران کے ساؤتھ پارس فیلڈ سے توانائی کے بحران کا شکار پاکستان کے لیے یومیہ ایک ارب کیوبک فٹ تک گیس کی فراہمی کی جانی تھی۔

تاہم پاکستان نے امریکی پابندیوں سے بچنے کے لیے اپنی سر زمین پر پائپ لائن کی تعمیر شروع نہیں کی۔

رواں سال اگست میں پاکستانی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ تہران نے پیرس میں قائم ثالثی عدالت سے رجوع کرنے سے قبل اسلام آباد کو حتمی نوٹس دیا ہے۔ تاہم اب ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ پاکستان نے قانونی فرمز کی خدمات حاصل کر لی ہیں تاکہ پاکستان کو بھاری جرمانے سے بچایا جا سکے کیونکہ اطلاعات ہیں کہ اس منصوبے میں تاخیر پر اسلام آباد کو 18 ارب ڈالر تک جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یاد رہے کہ 2011 میں ایران نے اعلان کیا تھا کہ اس نے اپنی طرف 900 کلومیٹر طویل پائپ لائن کی تعمیر مکمل کر لی ہے۔

اس اعلان کے دو سال بعد اس وقت کے ایرانی صدر محمود احمدی نژاد اور پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے ایرانی سر زمین پر سات ارب ڈالر کے منصوبے کا افتتاح کیا تھا۔

بعد ازاں 2014 میں پاکستان نے آئندہ سال یعنی 2015 سے شروع ہونے والے یومیہ 10 لاکھ ڈالر تک کے جرمانے کی ادائیگی سے بچنے کے لیے اس منصوبے میں 10 سال کی توسیع کا مطالبہ کیا۔

جس کے بعد مارچ 2024 میں جب توسیع کی مدت اختتام کو پہنچنے کے قریب تھی تو اس وقت کی پاکستان کی نگراں حکومت نے صوبہ بلوچستان کے شہر گوادر میں ایران کے ساتھ اپنی سرحد سے پائپ لائن کے 80 کلومیٹر طویل حصے کی تعمیر کی منظوری دی۔ تاہم اس تعمیر کا آغاز ابھی ہونا باقی ہے۔

تحریک انصاف کا وکلاء تحریک چلانے کا منصوبہ وڑھ کیسے گیا ؟

اس حوالے سے وزیرِ پیٹرولیم مصدق ملک نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ بین الاقوامی پابندیاں پائپ لائن کے آگے بڑھنے کی راہ میں حائل ہیں۔انہوں نے کہا تھا کہ "یہ انتہائی پیچیدہ معاملہ ہے اور اس میں بین الاقوامی پابندیاں شامل ہیں۔”وزیرِ پیٹرولیم کے اس بیان کے کچھ گھنٹوں بعد امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے تہران کے ساتھ کاروبار کرنے کے خلاف واشنگٹن کی وارننگ کو دہرایا تھا۔انہوں نے میڈیا بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ ہم ایران کے خلاف اپنی پابندیاں جاری رکھیں گے۔ ہم ایران کے ساتھ تجارتی معاہدے پر غور کرنے والے کو مشورہ دیتے ہیں کہ اس کے ممکنہ اثرات سے باخبر رہے۔

واضح رہے کہ ایران اپنے جوہری اور بیلسٹک میزائل پروگرامز کی وجہ سے امریکی پابندیوں کی زد میں ہے۔

مبصرین کے مطابق پاکستان کی جانب سے بھی بعض اوقات یہ اشارہ دیا گیا کہ وہ امریکی وارننگ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران سے گیس کے حصول کے حوالے سے ملکی مفادات کو مقدم رکھے گا تاہم پاکستان کی جانب سے اس حوالے سے کوئی عملی اقدام سامنے نہیں آیا۔اگرچہ پاکستان اپنی سرحد کے اندر پائپ لائن تعمیر کر سکتا ہے۔ لیکن ایران سے گیس خریدنے کے لیے اسے واشنگٹن سے پابندیوں میں چھوٹ حاصل کرنا ہوگی اور اب تک اسلام آباد نے یہ چھوٹ حاصل نہیں کی ہے اور ایران پاکستان پر 18 ارب ڈالر جرمانہ لگوانے عالمی ثالثی عدالت پہنچ گیا ہے۔

Back to top button